امریکا کے نزدیک، پاکستانی شرائط کی ویلیو نہیں

america

america

مہمند ایجنسی میں نیٹو افواج کے ہاتھوں جس المناک سانحے نے جنم لیا تھا اِس کے بعد توایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پاک امریکا تعلقات ختم ہوجائیں گے مگر ہم مان گئے بھئی …!امریکیو ں کو انہوں نے پاکستانی صدر کو ایک بار پھر فون کرکے اِنہیں بھی اسی طرح منا ہی لیا جس طرح سانحہ نائن الیون کے بعد مشرف کو ایک رات وائٹ ہاوس کے ایک ترجمان نے فون کیا اور اِسے ہولناک انجام کی دھمکی دے کراپنا اتحادی بننے پر مجبورکیاجب سے پاکستانی اِس کے ساتھی اور امریکی اتحادی ہیں اور یہ بیچارے اب تک اپنا سب کچھ لٹاکر بھی امریکا کے اعتبار ی نہیںبن سکے ہیں۔ اس مرتبہ بھی فون کے معاملے میں ایساہی کچھ ہواہے بلکہ ہم تو یہاں یہ کہیں گے کہ خطے میں اپنے مفادات کے حصول تک کامیابیاں حاصل کرنے والے امریکا اور اِس کی انتظامیہ نے اپنے صدر مسٹر اوباما کو اندرونی طور پر مجبور کیا ہوگاکہ وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ خطے سے وابسطہ امریکی مفادات کے خاطر ہی پاکستانی صدرآصف علی زرداری کو فون کریں اور اِنہیں پیار و محبت اور شفقت سے سمجھائیں کہ وہ نیٹوافواج کی غلطی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اگر آپ کہیں تومیں معافی بھی مانگ لیتاہوں مگر گاڈ کے واسطے ا مریکا سے نیٹوافواج کی جانب سے پاکستانی چوکیوں پر ہونے والی سفاکیت کی وجہ سے ناراض مت ہوں اور امریکا سے تعلقات ختم نہ کریں بلکہ نیٹو افواج کی غلطی مانتے ہوئے اِسے آپ معاف کردیں اور ہمارے ساتھ اپنابھرپور تعاون جاری رکھیں۔ اور پھر یکا یک یہی ہواکہ صدرمملکت آصف علی زرداری کے ساتھ امریکی ہم منصب مسٹربارک اوباما کی جانب سے گزشتہ اتوار کی شب ہونے والے ٹیلی فونک رابطے کے بعد اطلاع یہ ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین تیزی سے رابطے ہوئے جس میں امریکی صدر مسٹر اوباما کی نیٹو حملے کی تحقیقات اور پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانیوں پر تفصیلی غور کیاگیااور اِس بات کو بھی یقینی بنانے کا عزمِ مصمیم کیاگیاکہ اب امریکی صدر کے فون آنے کے بعد اِن کی جانب سے کی جانے والی یقین دہانیوں کے پیشِ نظر پاک امریکاتعلقات کے حوالوں سے پیداہونے والی صورت حال پر کسی مثبت اور تعمیری نکتہ نگاہ تک پہنچنے کے لئے جائزہ لیاجائے گاجس سے متعلق اِس بات کا بھی امکان ظاہر کیاجارہاہے کہ عنقریب ایوان صدر میں اہم اجلاس متوقع ہے ۔جس میں یہ فیصلہ کیاجائے گاکہ امریکا کے ساتھ رابطے پھر سے بحال کردئے جائیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے کی طرح امریکی اتحادی رہ کر اپنا فعل کردار اداکیاجائے۔  اِس موقع پر ہم یہ کہیں گے کہ امریکی صدر کا ایک فون صدر زرداری کو کیا آگیا گویاکہ مہمندایجنسی میں نیٹوافواج کے ہاتھوں رونماہونے والے المناک واقعے جس میں دوافسر سمیت 24پاکستانی فوجی اہلکار شہیداور 13یا اِس سے زائد زخمی ہوگئے تھے پاکستانی صدر اور بہت سوں کے امریکاسے متعلق جو گرماگرم جذبات تھے وہ سب کے سب ٹھنڈے پر گئے اور یہ سب کچھ بھول کر مشرف کی طرح اِن سب نے بھی امریکاکا پھر ساتھ دینے کے لئے اپنی اپنی کروٹین بدلنی شروع کردی ہیں۔  مگر اِس مرتبہ اطلاعات کے مطابق مصدقہ ذرائع سے یہ بات بھی سامنے ضرور آئی ہے کہ پاکستانی حکام یہ دعوی  کررہے ہیں کہ افغانستان میں سرگرم رہنے والی اتحادی افواج کی سپلائی بحال کرنے کے لئے پاکستانیوں نے بہت سے کڑی شرائط پہلے ہی سے مرتب کررکھی ہیں جن میں اول یہ کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جائے اور دوئم یہ کہ پاکستان کی امداد غیر مشروط طور پر کی جانے کی تحریری یقین دہانی کرائی جائے۔اگر یہ شرائط امریکی انتظامیہ مان لیتی ہے تو پھر نیٹوکی سپلائی لائن اِس ہی رواں ہفتے میں(طنزا ترنت) بحال کردی جائے …ورنہ بند رہے گی اور اِس ساتھ ہی یہ خبر بھی ہے کہ اِس حوالے پاک امریکا مذاکرات اور رابطے میںبھی تیزی آگئی ہے۔   حالانکہ یہاں ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ اِس سے قبل وائٹ ہاوس نے مہمند ایجنسی میں نیٹو کے فضائی حملے پر پاکستان سے دوٹوک الفاظ میں معافی مانگنے سے انکارکردیاتھااور اِس موقع پر امریکیوں کا یہ بھی اسرار تھاکہ ابکی بار ہم کسی بھی پاکستانی دباو ،قرارداد یا شراط کی وجہ سے ہرگز معافی نہیں مانگیں گے جس کا برملا اعلان امریکی صدر اوباما بھی کرچکے تھے امریکیوں کا اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہناتھا کہ جب صدر اوباما کی جانب سے مشتعل اور انتہائی جذباتی پاکستانیوں کی جب سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر مسٹر اوباما نے اِظہارافسوس کرلیاتو بس بہت تھا اور پاکستانیوں کو اِس پر اِکتفاکرلینا چاہئے تھا یہ کیا ….؟کہ ہم سے ہی پاکستانی حکمران، سیاستدان، عسکری قیادت اور عوام امداد مانگتے ہیں اور ہماری ہی امداد پر پل بھررہے ہیں اور جب کبھی ہم سے کوئی ذراسی غلطی سرزد ہوجائے تو ہم امریکیوں کے ہی پاکستانی دشمن بن جاتے ہیں … پاکستانیوں کے اِن رویوں کے خلاف ہمارے عوام اور امریکی انتظامیہ کے بھی بے شمار تحفظات ہیں مگر ہم نے یا ہمارے عوام نے تو کبھی بھی پاکستان سے متعلق اپنا سخت ترین احتجاج نہیں کیا تو پھر یہ پاکستانی عوام ہمارے متعلق ایساکیوں سوچتے اور کرتے ہیں …؟اور ہمارے ہر خلوص اور تعاون اور ہمدردی کے پیچھے بھی امریکی نفرت کو پروان چڑھارہے ہوتے ہیں۔
امریکیوں کا ساتھ ہی یہ بھی کہنا ہے کہ ارے بھئی! مہمندایجنسی کے واقعے میں نیٹو افواج سے تھوڑی سی غلطی کیاہوگئی پاکستانیوں نے تو آنکھیں ہی پلٹ لی ہیں …اِس بار یہ حال عوام کی طرح پاکستانی حکمرانوں ،سیاستدانوں اور اہم عہدوں پر فائزسول اور عسکری افسران کا بھی ہوگیایہ سب کے سب اب کسی بھی ہمارے معاملے میں پہلے کی طرح سوچنے کے بجائے الٹا اپنے جذباتی اور مشتعل عوام کی طرح سوچنے لگے ہیں …امریکاکی نظر میں پاکستانی عوام کے جذبات کی تو کوئی قدر نہ پہلے کبھی رہی تھی اور نہ اب ہے۔  مگر امریکیوں کو اِس بار یہ خوف کھائے جارہاہے کہ اگر پاکستانی حکمران، سیاستدان اور عسکری قیادت کی سوچ بھی پاکستانی عوام جیسی ہوگئی تو پھر ہمارے لئے خطے سے متعلق جو منصوبے ہیں اِنہیں فوری طور پر بدلنے یا ختم کرنے ہوں گے وہ اِس لئے کہ یہ حقیقت ہے افغان روس جنگ سے لے کر آج تک امریکانے اپنے مفادات سے متعلق اِس خطے میں جتنے بھی منصوبے ترتیب دیئے ہیں اِن سب کے پسِ پردہ پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل رہاہے کیوں کی اِس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اِس خطے میں امریکا کچھ بھی نہیں کرسکتاتھا جب تک پاکستان اِس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا …اور جہاں تک بات ہے بھارت کی تو یہ بات امریکا بھی اچھی طر ح سے سمجھتاہے کہ بھارت کی ہمیشہ سے ہی یہ خصلت رہی ہے کہ یہ ہر معاملے میں کھانے کو پکی پکائی چاہتاہے اِس مرتبہ بھی سانحہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکیوں نے جو گیم کھیلا ہے اِس میں بھی بھارت بغیر کچھ کئے سب کچھ ہڑپ کرنے کے چکرمیں امریکیوں کے ساتھ زبردستی کا چپکاہواہے اور اِدھر امریکا نے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا ہوا ہے۔ اگر چہ مہمندایجنسی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ہمارے مصالحت پسندی کے شکاراور موقع پرست حکمرانوں کی آنکھیں دیر سے کھلیںمگر کھلیں توضرورتھیں جو گزشتہ دنوں امریکی صدر بارک اوباما کے ایک فون آنے کے بعد پھر آہستہ آہستہ بندہوناشروع ہوگئیں ہیں مگر اب دیکھنا ہے کہ یہ اپنے ان فیصلوں پر کب تک جمے رہتے ہیں جس کا یہ اعلان کرچکے ہیں کہ نیٹو حملے نے پاکستانی سالمیت اور خودمختاری پر حملے کئے ہیں… اب پاکستان کی برداشت کی حد ہوگئی ہے… امریکاکی آنکھ میں آنکھ ڈال کر برابری کی سطح پر بات کرنے کا وقت آگیاہے… اب امریکاسے کسی بھی معاملے میں دب کر ہرگز بات نہیں کی جائے گی…؟اور امریکا ہر معاملے کے بعد ہمیں کچھ )یعنی ڈالرز)لواور اپناتعاون جاری رکھو پر مجبور نہیں کرسکتا…نیٹو سپلائی بند رہے گی ، بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا حتمی فیصلہ ہے ….شمسی ایئر بیس امریکیوں کو خالی کرنا پڑے گا ….اوروغیرہ وغیر ایسے بہت سے جذباتی جملے اور نعرے ہیں آج جنہیں ساراپاکستان ایوانِ صدر سے لے کر ملک کے طول ارض میں لگارہا ہے۔
اِن تمام باتوں کے باوجود ہم امریکا کے ماضی اور موجودہ رویوں کی وجہ سے اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکاکے نزدیک پاکستانی قرردادوں اور شرائط کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اِسے پاکستانی حکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام کی جانب سے کئے جانے والے احتجاجوں کی کوئی پرواہ ہے …ہم اِس سوچ اورکسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ آج اگر امریکی صدر نے پاکستانی صدر زرداری کو جو فون کیاہے وہ اوباما نے پاکستان کے کسی ری ایکشن کی وجہ سے کیاہے تو ایسی کوئی بات نہیںہے بلکہ اوباما کو امریکی انتظامیہ نے مجبورکیاہے کہ وہ اِس خطے سے وابسطہ اپنے مفادات اور منصوبوں میں پیداہونے والی رکاوٹوں کو ختم کرنے اور بون کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے پاکستانی صدر کوفون کریں اور ایسا مکھن لگائیں تاکہ پاکستان ہمارااتحادی رہے اور ہم اِس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر خطے میںاپنے مفادات حاصل کرتے رہیں اوریوں امریکی صدر مسٹراوبامانے صدرِمملکت عزت مآب جناب آصف علی زرداری کو فون کردیاجس کے بعد ایوانِ صدر میں دوڑیں لگنی شروع ہو گئیں جو اِن سطور کے رقم کرنے تک جاری ہیں۔

تحریر :  محمد اعظم عظیم اعظم