امریکا ہمارا پیچھا کب چھوڑے گا، ہم امریکا سے جان کیسے چھوڑائیں گے.؟

american

american

قوم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھ رہی ہے کہ ہم امریکا سے اپنی جان کیسے چھوڑائیں گے…؟یا امریکا ہمارا پیچھا کب چھوڑے گا …؟اور کب ہم خود کو حقیقی معنوں میں ایک آزاد ملک کا آزادباسی سمجھ سکیںگے…؟؟آج قوم کے ہر فرد کے ذہن میں اِیسے اور کئی سوالات کا جنم لینا ایک فطری عمل ہوکر رہ گیا ہے ۔

جن کا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہی کوئی عوام کے لبوں پر آنے والے ایسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب دے سکتاہے کیوں کہ آج ہمیں امریکی تسلط میں رہتے ہوئے ایک بڑاعرصہ گزرچکاہے اور ہم اِس کے عادی ہوچکے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ اب ہمیں ایسا لگتاہے کہ ہمارے اِن سوالات کے جوابات نہ تو ہمارے حکمرانوں کے ہی پاس ہیں اور نہ ہی ہم بے حسوں کے پاس ہی کوئی ایساجواب رہ گیا ہے کہ ہمیں یہ احساس ہو کہ ہم بھی اب کبھی آزاد ہو پائیں گے اور صحیح معنوں میںکسی آزاد ملک کی آزاد فضاو ں میں سانس لے پائیں گے۔

کیوں کہ اگر آج ہم زمینی حقائق کو دیکھیں توہمیں واضح طور پر یہ نہ صرف محسوس ہوگا بلکہ نظر بھی یہ ہی آئے گا کہ ہم سے اپنی مفادات کی اوٹ میں ہماری خودمختاری اور سا لمیت کا بیڑاغرق کرنے والے امریکاکی ہماری سرزمین ِ پاک اور ہمارے ایٹمی اثاثوں پر رال ٹپک رہی ہے اوروہ یہ اب کبھی نہیں چاہئے گا کہ جب اِس کے حلوے کھانے کے دن قریب آگئے ہیں تو وہ ہمیں تنہاچھوڑ کر چلاجائے ۔

یہاں یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ آج ہمارے بلوچستان ، خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر حصوں میں جتنی بھی دہشت گردی یا قتل وغارت گری ہورہی ہے ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اِن سب کے پیچھے کوئی اور نہیں صرف امریکاہی ملوث ہے شاید حکمران طبقہ یا ہمارے یہاں مٹھی بھر موجود امریکا نواز وہ ٹولہ جو ہمارے درمیان رہ کر امریکا کے لئے کام کررہاہے یہ ہماری باتوں سے اتفاق نہ کرے مگر یہ حقیقت ہے کہ امریکا ہم سے ایک طرف تو منافقت کا لبادہ اڑھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھائے ہوئے ہے تو دوسری جانب یہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل ہونے تک ہمارے وجود کو روئے زمین پر برداشت کرنا بھی نہیں چاہتاہے۔

Pakistan Atomic assets

Pakistan Atomic assets

پاکستان کے عوام کی اپنی سرزمین سے محبت اوروالہانہ عقیدت سے خائف اورپاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے خوفزدہ رہنے والا امریکایہ کبھی نہیں چاہتاہے کہ پاکستان معاشی، سیاسی ، اقتصادی اور دیگر حوالوںسے مستحکم ہو اور اپنے پیروں پر کھڑاہوکر اپنی بقا و سا لمیت کا فیصلہ خود کرنے کے قابل ہواور خطے کے دوسرے ممالک(جن میں سرِ فہرست بھارت شامل ہے) کو اپنا زیرِ تسلط کرکے اپنا اثرورسوخ دنیا کے دوسرے ممالک تک پھیلائے اور اپنی صلاحیتوںکا استعمال کرتے ہوئے اپنا ایک مضبوط اور دیرپا اسلامی بلاک بناکر اِس کی ناک میں دم کئے رکھے اور اِسی اسلامی بلاک کے ایک انتہائی طاقتور یں ملک کی حیثیت سے ابھرکر دنیاکو اپنے اشاروں پر چلانے والا ملک بن جائے۔

یہاں ہم یہ ضرور کہناچاہیں گے کہ ہمارے ملک سے متعلق ایسے اندیشوں اور خدشات میں جکڑے رہنے والے امریکا نے ہر زمانے میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ بنانے رکھا اور آج بھی یہ اِس پر یکسوئی کے ساتھ قائم ہے اور یہ اپنے اِن منصوبوں کو ہردم سود مند بنانے کے لئے اس حد تک پہنچ گیا کہ جہاں سے اِسے یہ تسکین ملی کہ یہ اپنے کام میں کامیابیاں حاصل کرنے کے قریب ترہوتا جارہاہے۔

ہمیں اِس کا انداز تب ہواجب گزشتہ دنوں پاکستان سے جڑے ناپاک امریکی عزائم کی حد کی جھلک ایک خبر میں کئے گئے اس دعوی میں نظر آئی جس میں واضح طور پر پاکستان سے منسلک امریکی سوچوںاور عزائم کی عکاسی ہوگئی ہے وہ یہ کہ امریکی صدر بارک اوباما نے 2011میں اپنے انتہائی اعتماد والے عملے سے کہاتھا کہ یہ پاکستان کو قومی سلامتی کے لئے سب سے بڑی تشویش قرار دیتے ہیں اور پاکستان ٹوٹ سکتاہے اور اِس کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ شروع ہوسکتی ہے خاکم بدہن یہ وہ دعوی ہے جیسے نیویارک ٹائمز کے واشنگٹن میں نمائندے ڈیوڈای سنکر نے اپنی کتاب کنفرنٹ اینڈ کنسیل : اوبامازسیکرٹ وار اینڈ سرپرائزنگ یوز آف امریکن پاور میں اپناسینہ ٹھونک کر وثوق کے ساتھ کیاہے ۔

obama

obama

آگے چل کر خبر میں ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی میڈیا نے پچھلے ماہ شائع ہونے والی اِس کتاب کے اقتباسات شائع کئے جس کے بارے میں یہ کہاجاتاہے کہ اِس معاملے کو اہمیت حقیقی معنوں میں اس وقت ملی جب امریکی حکام نے پاکستانی سفارتکاروں، امریکا کے دورے پر جانے والے حکام ، قانون سازوں اور یہاں تک کہ صحافیوں کو بھی اِس کتاب کے مطالعے کو کہاگیاتھا۔

تاکہ اِس کے ظاہر و باطن زاویوں پر بحث کی جاسکے رپورٹ میںیہ بھی ہے کہ کتاب میں اوباما کے اپنے سینیئر معاونین سے کہے گئے یہ الفاظ بھی جلی حروف میں رقم ہیںکہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اِس ملک کو ممکنہ طور پر ٹوٹنے سے بچانے کے لئے بہت کم طاقت رکھتے ہیں اور وہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اِس کے جوہری ہتھیاروں کی چھینا جھپٹی کی دوڑ کو قابونہیں کرسکیں گے۔

اب اِس منظر اور پس منظر میں ہم یہاں آگے مزید کچھ تحریر کرنے سے قبل یہ کہنا چاہیں گے کہ خاکم بدہن آج امریکا نے اپنے تئیں ہمارے پیارے ملک پاکستان سے متعلق جو ناپاک منصوبہ مرتب کررکھاہے اِس سے کھلم کھلا صرف اِس شیطان کے ہی عزائم کی عکاسی ہورہی ہے جو یہ ہم سے دوستی کا ہاتھ بڑھاکر حاصل کرناچاہ رہاہے۔

اب ایسے میں ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، محب وطن عسکری قیادت اور غیور پاکستانی عوام کو یہ ضرور سوچنا ہوگاکہ آج ہم امریکا کے اتنے قریب بھی نہ ہوں کہ یہ اپنے عزائم کے خاطر ہمیں اپنی دونوں ہتیلیوں کے بیچ میں رکھ کر مسل کر رکھ دے اور اپنے دونوں ہاتھ صاف کرتے ہوئے ہمارا وجود اپنے پیروں تلے کچل کر ہمیں نیست ونابود کرکے رکھ دے اور ہم فناہوکر بھی بظاہر نظر آنے والی اِس کی دوستی کے آڑ میں اِس کا منافقانہ وہ ہاتھ اور وہ مکروہ چہرہ بھی نہ دیکھ سکیں جو یہ ایک عرصے تک ہم سے چھپاکر ملتارہاہے اور ہم اپنی نادانی اورنا سمجھی کی بناپر اِس سے دوستی قائم کئے رہے اور بالآخروہ ہم سے اپناکام تو نکال لے گیااور ہم اِس کی محبت میں شمع کے پروانے کے مانندفناہوگئے ۔

terrorists

terrorists

ہم اپنے مندرجہ بالا ایسے کئی سوالات کے جوابات کی خواہش لئے قبرکی آغوش میں چلے گئے۔اور یہ دہشت گردِ اعظم امریکا اپنی اِس کامیابی پر جشن بناتے ہوئے ہم کو دنیاکی سب سے بڑی بے وقوف قوم کہہ کرہماری قبروں کے نشانات بھی مٹادے ڈوراِس وقت سے۔ تحریر: محمداعظم عظیم اعظم