انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کو امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں ڈرون طیاروں کے مہلک استعمال کی قانونی اور حقیقی بنیاد کی تفصیلات سامنے لائے۔تنظیم نے یہ بیان امریکی صدر براک اوباما کے اس بیان کے بعد جاری کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مشتبہ شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے بغیر پائلٹ کے اڑنے والے طیاروں کے استعمال کی تصدیق کی تھی۔ایمنسٹی نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ان ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی بھی نگرانی کرے۔تنظیم کے ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کے ڈائریکٹر سیم ظریفی کا کہنا ہے کہ امریکی حکام لازمی طور پر اس بارے میں تفصیلی وضاحت دیں کہ یہ حملے کس طرح قانون کے دائرے میں آتے ہیں اور ان میں شہریوں کی ہلاکتوں پر نظر رکھنے اور مناسب احتساب کو یقینی بنانے کے لیے کیا، کیا جا رہا ہے۔تنظیم نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ڈرون حملوں کے لیے رولز آف انگیجمینٹ یا کیا قواعد وضع کیے گئے ہیں اور اس سلسلے میں کیا باضابطہ قانونی جواز موجود ہے؟
ایمنسٹی کہتی ہے کہ امریکی صدر کا پاکستان میں ڈرون طیاروں کے استعمال کی تصدیق کرنا شفافیت کی جانب ایک خوش آئند پہلا قدم ہے لیکن اس سے متعلق سوالات کے جوابات بھی دینے چاہییں۔تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں تک رسائی میں مشکلات اور وہاں سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے اس بات کی تصدیق ناممکن ہے کہ ڈرون حملوں میں کتنے شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ تنظیم کے مطابق جو شواہد دستیاب ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال یعنی سن دو ہزار گیارہ میں ڈرون حملوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ایمنٹسی کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کچھ ہفتوں میں تقریر کرنے والے ہیں جس میں ڈرون حملوں کی حمایت میں قانونی جواز پیش کریں گے۔ تنظیم نے کہا کہ امریکی انتظامیہ کو اس میں ڈرون حملوں کے متعلق قانونی اور حقیقی دستاویزات پیش کرنی چاہیے۔تنظیم کے بقول صرف یہ کہہ دینا کہ ہم پر اعتبار کیجیے، یہ حملے قانونی ہیں، کافی نہیں ہوگا۔ ماضی میں امریکی حکام کا یہ جواز کہ امریکہ اور القاعدہ کے درمیان عالمی جنگ جاری ہے قانونی تھیوری کی بنیاد بنتا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون اسے تسلیم نہیں کرتا۔