امریکہ کی ہٹ دھرمی اور معاشی غلامی

America

America

پاکستان ناٹو اور امریکہ کے مابین اوبامہ اور زرداری کی ٹیلی فونک گپ شپ کے باوجود26 نومبر کی چٹی گوری درندگی وحیوانیت کے تنازعہ پر تاحال کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔ امریکی شمسی ایر بیس سے بے نیل و مرام لوٹ گئے۔ امریکہ سمیت یورپی یونین کے اعلی عہدیداروں کی منت سماجت  اور ناٹو کی زمینی اپریشن کی دھمکیوں کے سامنے ppp  سرکار ایوان صدر اور GHQ کی ٹرائیکا ٹس سے مس نہیں ہوئی۔بون کانفرنس میں پاک سرزمین کی عدم موجودگی بھارت کو کابل میں اپنے پاوں دراز کرنے کا چانس مل سکتا ہے۔ ناٹو  پینٹگان اور وائٹ ہاوس کے تعصب حسد اور بغض کا یہ عالم  ہے کہ شہدا پاکستان کی تعزیت  کے شعبدے کی گردان تو جاری ہے مگر گورا رزیل معافی مانگنے پر تیار نہیں۔ امریکی سفیر کیمرون منٹر نے وائٹ ہاوس کو صلاح دی تھی کہ پال امریکہ تعلقات بگڑتے جارہے ہیں جنہیں کنٹرول کرنے  کے لئے اوبامہ کا وڈیو بیان ضروری ہے۔ نیویارک ٹائمز نے خبر جاری کی کہ اوبامہ کے مشیروں نے معافی مانگنے کے اپشن کو مسترد کردیا انہیں خدشہ ہے کہ اوبامہ کی معافی ایک طرف صدارتی الیکشن پر منفی اثرات مرتب کرے گی تو دوسری جانب ریپبلکن اس ایشو پر امریکی ووٹرز کو اوبامہ سے بد ظن کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ امریکی زرائع ابلاغ میں سلالہ چیک پوسٹ پر  ناٹو کی دہشت گردی کو غلطی  کا پیش خیمہ قرار دیا جارہا ہے۔ کیوبا کے صدر کاسترو نے امریکی اخبار کاونٹر پنچ میں ناٹو کی ہیرا پھیری کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا  قذافی کو ہلاک کرنے والے نیٹو کے تربیت یافتہ ایجنٹ تھے۔
کاسترو کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ناٹو نے مظالم ڈھانے کا کام سنبھال رکھا ہے۔ فیڈرل کے مطابق بلغراد میں ناٹو نے چینی ایمبیسی پر بمباری کرکے کئی  سفارت کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ناٹو  نیٹو نے پینترا بدل کر اسے غیر ارادی غلطی سے جوڑ دیا۔پاکستان نے جہاں نیٹو کا حقہ پانی بند کردیا تو وہاں یو این او  سے رجوع کیا جارہا ہے۔ یو این او سے انصاف کی امید دن میں تارے دیکھنے کے مترادف ہے۔ نیوز ویک نے یو این او کی حالت زار پر رپورٹ شائع کی ۔ نیوز ویک کے مطابق یو این او کا وجود امریکن فنانشنل ایڈ کا مرہون منت ہے۔یو این او میں شکایات پر سماعت ہوتی ہے۔انصاف بر مبنی قراردادیں بھی پاس ہوتی ہیں۔ ۔ سلامتی اور سیکیورٹی کونسل نے کشمیر اور فلسطین  کے حق میں قراردادیں منظور کیں  مگر ان پر عمل نہیں ہوا۔ یو این او اپنی قراردادوں پر عمل درامد کروانے کی قوت شاقہ سے محروم ہے۔نیوز ویک نے لکھا تھا  اج بھی کئی پسماندہ ترین افریقی ریاستیں یو این او کی سالانہ فیس کی سکت  سے محروم ہیں۔واشنگٹن یو این او اور اسکے زیلی اداروں پر ڈالروں کی بوریاں واہ کردیتا ہے۔ یو این او امریکہ اور اسکے ناجائز فرزند اسرائیل کے خلاف کسی چیرہ دستی پر لیپاپوتی کا ناٹک تو کرسکتی ہے  مگر سچ تو یہ ہے یو این او امریکی مفادات کو نظر انداز کرنے یا انکی مرضی کے برعکس فیصلہ سنانے کی ہمت نہیں  رکھتے۔
چند سال قبل چائنا نے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی طیارے کو زبردستی نیچے اتار لیا۔ امریکہ نے اسے غلطی سے منسوب کردیا۔ چین نے  اسے رد کرکے معافی کا مطالبہ داغ دیا۔ چین کی استقامت پر سپرپاور نے باقاعدہ معافی مانگ کر گلو خلاصی کروائی۔پاکستان نے افغان جنگ میں10سال اور59 دن امریکہ کا ساتھ دیا۔پاکستان کے39 ہزار شہری5000 فوجی اور فورسز کے جانثار لقمہ اجل بنے۔اسلام اباد کو77 ارب ڈالر کا معاشی نقصان جھیلنا پڑا جبکہ امریکن ایڈ17 ارب ڈالر کا ہندسہ نہ چھو سکی۔ امریکہ نے ڈرون حملوں  سے ہماری سلامتی غیرت و حمیت کا  بھرکس نکال دیا۔۔ امریکہ نے مشرفی سکھا شاہی کے مقابلے میں حالیہ جمہوری حکومت کے قیام کے بعد ڈرون حملوں کی تعداد بڑھادی۔2004 تا2007 تک کے عرصہ میں امریکہ نے9  مرتبہ ڈرون شب خون مارا ۔9 ڈرون نے89 افراد میں موت تقسیم کی۔2008 تانومبر2011 تک267  ڈرون حملوں میں2611 قبائلی فنا کے گھاٹ اتر گئے۔ امریکہ افغان جنگ میںکھربوں ڈالر جھونک چکا ہے مگر ایک دہائی سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والے فوجی اپریشن میں کامیابی کے سارے دعوے خذاں رسیدہ پتوں کی طرح پتوں کی طرح وقت کے کوڑے دان میںگل سڑ گئے۔ ہنوز دلی دور است کی طرح اوبامہ کی جیت کا خیالی خواب منزل سے کوسوں دور ہے اور یہ وہ منزل ہے جسکا اختتام تاابد تک بھی ممکن نہ ہوگا۔ ہوتا۔
افغانستان میںناٹو اور جنگجووں کی فوجی قوت کا تقابلی جائزہ دماغ کی جڑیں تک ہلادیتا ہے کیونکہ  روئے ارض کی عظیم ترین عسکری طاقت کو چند ہزار اللہ والوں نے دانتوں میں انگلی اور منہ میں دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔کابل میں نیٹو فورس130638 سورماوں پر مشتعمل ہے۔نیٹو کی معاونت کرنے والی افغان نیشنل ارمی کی تعداد170500 ہے جبکہ افغان پولیس کے 135800  تربیت یافتہ گوریلے بھی ناٹو کے اشاروں پر خون کی ہولی کھیلنے  کے لئے ہر وقت چوکنے رہتے ہیں۔یوں نیٹو اور اسکی حمایت یافتہ فورسز کی مجموعی تعداد436636  ہے۔امریکن تھنک ٹینکس کے جمع کردہ اعداد و شمار کی رو سے طالبان کا لشکر بمشکل 36000 مزاحمت کاروں پر مشتعمل ہے۔ طالبان کے شریک سفر حریت پسندوں میں القاعدہ کے500 حقانی نیٹ ورک کے10ہزار حزب اسلامی کے1000 جنگجو ناٹو کے خلاف صف ارا ہیں۔ گورے قابضین کا مکو ٹھپنے والے ملکی اور غیر ملکی جہادیوں کے چھوٹے گروہوں کو ملا عمر کے جانثاروں میں شامل کیا جاوے تو ایساف کے مطابق طالبان کی تعداد75 تا77 ہزار کے درمیان ہے۔ ایساف 26842 انتہاپسندوں کی ہلاکتوں کا دعوی کرتی ہے جبکہ ناٹو ترجمان اپنے جانی نقصان کو14000 تک بریکٹ کرتے  رہتے ہیں۔
لندن ٹائمز ان لائن نے ایساف کی سو گنا زائد ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے ۔ دوسری جانب ایک سچ تو یہ بھی ہے کہ ناٹو کے ہزاروں جنگی طیاروں کی کارپٹ بمباری میں لاکھوں افغان شہری صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ امریکہ2014 میں انخلا کا بذدلانہ پروگرام فائنل کرچکا ہے۔ امریکہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے لئے شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن کا مطالبہ کرتا ارہا ہے مگر کیانی ارمی چیف کی حثیت ڈو مور کا مطالبہ رد کرچکے ہیں۔امریکہ پاکستان کو سزا دینے کی خاطر کبھی باڈر کی بار بار پامالی کرتا ہے تو کبھی افغان نیشنل ارمی کو سرحد پار پاکستانی بھائیوں پر گولیاں چلانے کا حکم دیتا ہے۔امریکی شیطان کبھی isi کو دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کا کوسنا دیتا ہے تو کبھی پاکستانی چیک پوسٹ پر اندھا دھند بمباری کا مرتکب  بنتاہے۔ اگر پاک فورسز نے اسامہ اپریشن کے  مومنانہ جرات مندانہ موقف اپنایا ہوتا تو ہمیں 26  نومبرکو مشرقانہ فتنہ گری کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جبران نے کہا تھا کہ سچ کے ننگے جسم کو ریشم کے سات پردوں میں بھی چھپادیا جائے تو پھر بھی ننگا رہتا ہے۔ یہاں بھی ایک سچ ایسا ہے جس کا ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا ہے۔پاکستان کو امریکہ نے چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے۔معاشی غلامی کا شکنجہ ہماری ازاد خارجہ کو ہا ئی جیک کئے ہوئے ہے۔
امریکہ کے اگے ڈٹ جانیوالے احباب درج زیل اعداد و شمار پر کیسے اورکس طرح  اپنے نکتہ نظر پر قائم رہ سکتے ہیں۔پاکستان امریکہ کا1.507  ارب ڈالر کے طویل المدت قرضوں کا مقروض ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ ڈونر ایجنسیوں اور پیرس کلب  نے 40 ارب ڈالر کی امداد دی  اگر امداد واپس لینے کے لئے امریکہ نے uno سے رجوع کرلیا تو  ہم کیا کریں گے؟  اسلام اباد پیرس کلب13.958 ارب ڈالر جس میں120 ارب ڈالر ماسکو کا حصہ ہے۔ پاکستان  کے کھاتے میںجاپان   کے7.011 ارب ڈالرز فرانس  200 ارب ڈالرجرمنی  1.66ارب ڈالرکوریا 47 کروڑ10 لاکھ  ڈالرنیدرلینڈ 10 کروڑ60 لاکھ ڈالربلجیم3 کروڑ10 ڈالراٹلی 9 کروڑ80 لاکھ ڈالرپیرس 7 کروڑ90 لاکھ ڈالر کنیڈا ناروے 1 کروڑ90 لاکھ ڈالربرطانیہ 90 لاکھ ڈالراسٹریا6 کروڑ ڈالرسوئیڈن 15 کروڑاور10 لاکھ ڈالرسپین7 کروڑ90 لاکھ ڈالرکینیڈا 51 کروڑ ڈالرسوئزرلینڈ10کروڑ30 لاکھ ڈالر فن لینڈ80 لاکھ ڈالر اور امریکہ کے1.507 ڈالرز کے قرضہ جات ہیں۔پاکستان پر ڈونر ایجنسیوںکا23.750 ارب کے قرضہ جات کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ایشیائی ترقیاتی بنک11.586  ارب ڈالر50 کروڑ  یورپین انوسٹمنٹ بنک50 کروڑ80  لاکھ ڈالرانٹر امریکن ڈویلپمنٹ بنک 18 کروڑ60 لاکھ  ڈالراور اوپیک 2 کروڑ 22 لاکھ ڈالر ورلڈ بنک  کے زیلی  ادارے انٹرنیشنل بنک فاری دی کنسٹرکشن 1.722 ارب  ڈالرکے ہوی ویٹ قرضہ جات واجب الادا ہیں۔ پاکستان دو طرفہ بنیادوں پر پیرس کلب سے2.750 ارب ڈالر کی رقم  اسکے علاوہ لے چکا ہے۔  پاک سر زمین عرب امارات اور سعودی  عرب کی بھی مقروض ہے۔پاکستان سعودی عرب  کا 55 کروڑ ڈالر کویت 10کروڑ  40لاکھ امارت12کروڑ اور10 لاکھ ڈالر لیبیا44 لاکھ ڈالر کا نادہندہ ہے۔ دیا۔1.762 ارب ڈالر چین سے قرضوں کی شکل میں شاہی خذانے میں جمع ہوئے۔پاکستان نے  1953تا 1961 تک امریکہ سے دو ارب ڈالر کی  رقم وصول کی۔1982 سے امریکی امداد5.1  ارب ڈالر سالانہ تھی۔ہاورڈ یونیورسٹی میں جان ایف کینڈی سکول نے11/9کے بعد پاکستان کو دی جانیوالی امداد 2009 میں رپورٹ تیار کی۔رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2002 سے2008 تک پاکستان کو 12ارب ڈالر کی امداد دی۔ ٹائمز اف انڈیا نے فروری2009 میں رپورٹ چھاپی کہ پاکستان2002 تا2010 تک پاکستان نے18 ارب ڈالر وصول کئے۔
اب  سوال تو یہ ہے کہ امریکہ اور اسکے سود خور صہیونی بنکوں نے پاکستان کے بال بال میں جکڑ رکھا ہو جنکے کشگول کی خیرات پر ملک چلتا ہو بھلا  مقروض کسطرح اسکے سر پر ڈنڈا چلا سکتا ہے۔ حکمران افواج پاکستان سیاست دان اور قوم  جذباتیت کی بجائے ہوش سے کام  لیں۔ پاکستان کو امریکہ کے حوالے سے کوئی ایسی پالیسی مرتب کرنی ہوگی کہ ہماری گردن سے امریکہ کی فوجی دفاعی اور معاشی غلامی کا شکنجہ علحیدہ ہوجائے ورنہ ہمیں طفیلی ریاست کا کردار ادا کرنا پڑیگا۔
تحریر : رؤف عامر