امریکہ : (جیو ڈیسک) افغانستان میں طالبان نے اتوار کے روز بے باکانہ حملے کر کے کابل کے بیشتر حصے اور مشرقی افغانستان کے تین بڑے شہروں کی روزمرہ کی زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا او ر جو پیر کی صبح کو ختم ہوئے ۔ ذرائع کے مطابق ان کا مقصد مغرب کو ایک پیغام دینا تھا ۔ اور نیٹو کے اعتماد اور افغان فوج کی پیش رفت میں رخنہ ڈالنا تھا ۔ان حملوں میں کل 38 باغی ہلاک ہوئے جب کہ شہریوں کی معمولی سی تعداد بھی ہلاک ہوئی ۔
صدر حامد کرزئی نے ایک بیان میں ان حملوں کی مذمت کی ۔ لیکن اخبارکے خیال میں اس کا کچھ الزام نیٹو پر لگاتے ہوئے اسے ملک اور خاص طور پر نیٹو کی انٹیلی جینس کی ناکامی سے تعبیر کیا۔اخبار کہتا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حملہ آور خود کش بمبار تھے۔البتہ اسلحے سے پوری طرح لیس تھے۔ ایک زیر تعمیر سات منزلہ عمارت کی کئی منزلیں گولہ بارود سے بھری ہوئی تھیں ۔جو ابھی پھٹا نہیں تھا۔فرش کارتوس کے رانڈز، اور حملہ آوروں کی لاشوں سے اٹا پڑا تھا۔
اطلاعات کے مطابق حملہ آور برقعے پہن کر وہاں پہنچے تھے۔ان کی عمریں 20 اور30 کے درمیان تھیں۔ اور ان کا حلیہ عام افغانوں کا تھا ۔ جو بازاروں میں عام پھر تے نظر آتے ہیں۔ اخبار نے وزیر داخلہ بسم اللہ خان محمدی کے حوالے سے بتایا ہے،کہ شواہد سے ظاہر ہے۔یہ حقانی نیٹ ورک کے لوگ تھے۔ جن کے اڈے پاکستان میں ہیں۔
اخبارنے یاد دلایا ہے کہ اس سے پہلے بھی حقانی نیٹ ورک ستمبر میں کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملے کر چکا ہے۔ اس وقت بھی ایک نا مکمل عمارت سے راکٹوں اور گولہ بارود سے حملہ کیا گیا تھا ۔ ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اتوار کی کاروائی طالبان کی طرف سے موسم بہار کے حملے آغاز تھا۔ اور ان فوجی کمانڈروں کے لئے بھی پیغام ہے۔ جن کا دعوی ٰ ہے کہ طالبان کا زور ٹوٹ گیا ہے۔
امریکی سفیر رائین کروکر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اتوارکے حملے کے دوران افغان فوجوں کی کارکردگی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا معیار بہت ہی عمدہ اور انتہائی پیشہ ورانہ تھا۔اخبار کہتا ہے کہ یہ حملے افغانستان میں امریکی فوجی سرج کے نقطہ عروج پر ہوئے ہیں ۔جس کا ایک مقصد کابل کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ افغان سیکیورٹی فوجوں کے لیئے بھی ایک ابتدائی آزمائش کا وقت تھا۔ اور اس میں انہیں نیٹو کی طرف بہت معمولی سی مدد دی گئی ۔
اسی موضوع پر لاس اینجلس ٹائمز کہتا ہے کہ کابل اور دوسرے افغان شہروں پر طالبان کے یہ حملے بے باکانہ بھی تھے اور مربوط بھی ۔جن کا ہدف افغان دارالحکومت کے بعض کلیدی مقامات اور چار سفارت خانے تھے ، اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کا مقصد جانی نقصان پہنچانے سے زیادہ کابل کی حکومت اور اس کے غیر ملکی اتحایوں کی سبکی کرنا تھا۔ جس دوران انہوں نے امریکی، برطانوی، جرمن اور روسی سفارت خانوں کے علاوہ نیٹو ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنانے کے علاوہ تین مشرقی صوبوں کی ہوائی اڈوں اور پولیس سٹیشنوں کو نشانہ بنایا۔
اس کے علاوہ ان حملوں سے سخت گیر طالبان کے ہاتھ مضبوط کر کے امریکہ کی طرف سے شروع کئے گئے امن کے عمل میں رخنہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا مقصود تھا۔ جو اس جنگ کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور انسانی جانوں کے ضیاع سے عاجز آ چکے ہیں۔ لیکن اخبار کے مطابق افغان اور امریکی عہدہداروں نے ان حملوں کا بالکل ہی مختلف تناظر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتوار کے واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ افغان سیکیورٹی افواج اب اس قابل ہو گئی ہیں کہ نیٹو افواج سے سیکیورٹی کی ذمہ داریا ں سنبھال سکیں۔
چنانچہ کابل کے تین علاقوں میں افغان فوجوں نے نیٹو افواج کی مدد کے بغیر طالبان حملوں کو پسپا کر دیا تھا۔امریکی سفارت خانے کے ایک بیان کے مطابق اتوار کو افغان فوجوں نے باغیوں سے نمٹنے کی صلاحیت کا ثبوت فراہم کیا، جب انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ نہائت ہی موثر کاروائی کر کے امن و امان بحال کیا۔نیٹو کمانڈر جنرل جان ایلن نے کہا کہ افغان فوج کی جوابی کاروائی سے ثابت ہوا ہے کہ ملک کی حاکمیت اعلی اور آئینی حکمرانی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ۔