دنیا کو عالمی گائوں میں بدلنے والی حیران کن انسانی ایجاد انٹرنیٹ کو آئے چار دہائیاں مکمل ہو گئی ہیں۔ 29اکتوبر 1969ء کو وجود میں آنے والی اس ایجاد نے انتہائی مختصر سے عرصے میں صرف ایک بٹن کی کِلک پر دُنیا کو ایک عالمی گائوں میں بدل دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی ایجاد اصل میں انٹیلی جنس مقاصد کیلئے کی گئی تھی لیکن بعد میں اس کا استعمال معلومات کے حصول، پیغامات کی ترسیل، ڈیٹا اور دیگر مقاصد کے لئے بھی ہونے لگا۔ اس حیران کن ایجاد نے پوری دنیا کو ایک کُوزے میں بند کر دیا ہے اور آج انسانی زندگی کی ترقی کیلئے اِسے ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل انٹرنیٹ کے ذریعے مخالفین کے بارے میں معلومات اور لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے فیس بُک سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے اگر جاسوسی کا عالمی نیٹ ورک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ فیس بُک کے بارے میں ہونے والے کئی چشم کُشا انکشافات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی عرب ممالک اور دیگر اسرائیل دشمن ممالک کے صارفین پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کیلئے فیس بُک کو اُن کی سرگرمیوں اور سوچ و فکر کے تجزیئے کیلئے استعمال کرتی ہے۔فیس بُک اور اس طرح کے دیگر سوشل نیٹ ورکس پر صارفین کی معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اورپھر انہیں جاسوسی کے لئے ہدف بنایا جاتا ہے۔ نائن الیون واقعات کے بعد امریکا نے جس طرح مسلمان ممالک پر جنگ مسلط کر رکھی ہے اس کے اثرات امریکا کے خلاف شدید نفرت کی صورت میں رونما ہو رہے ہیں۔ امریکا اپنے خلاف اس نفرت کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے جہاں کئی دوسرے محاذوں پر برسرپیکار ہے وہیں انٹرنیٹ پر بھی ڈیجیٹل آئوٹ ریچ (ڈاٹ) نام سے ایک سائبر کمانڈو ٹیم تشکیل دے رکھی ہے جسے یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ براہ راست کنٹرول کرتا ہے۔ یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سنہ دو ہزار چھ میں یہ ٹیم تیار کی تھی ۔ ابتدائی طور پر یہ ٹیم تین افراد پر مشتمل تھی جو عربی زبان کے ماہر تصور کیئے جاتے تھے جبکہ بعد میں فارسی اور اردو کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا۔ اب تینوں زبانوں کے ماہرین کی تعداد دس بتائی جاتی ہے۔ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ گوگل اور دیگر سرچ انجنز کے ذریعے عربی، فارسی اور اردو کے مقبول بلاگز، ڈسکشن فورمز اور ویب سائٹس پر امریکا مخالف پوسٹ ہونے والے مواد کا بھرپور دفاع کرے۔ یہ لوگ امریکا مخالف مواد کا باریک بینی سے جائزہ لے کر نہ صرف جواب دیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کی کوششوں پر بھی مامور ہیں۔ اس ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اُن کا مقصد امریکا کی خارجہ پالیسی کے لئے حمایت حاصل کرنا نہیں بلکہ انٹرنیٹ پر موجود قیاس آرائیوں اور افواہوں سے ہٹ کر مختلف موضوعات پر امریکی حکومت کا مؤقف پہنچانا ہے لیکن انٹرنیٹ کی دنیا میں اسے بہت سے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ڈیجیٹل آئوٹ ریچ (ڈاٹ) کی ٹیم پر جو الزامات عام ہیں ان کے مطابق یہ لوگ مختلف فورمز، بلاگز اور سائٹس پر ممکنہ ”دشمنوں” کی تلاش میں رہتے ہیں اوران تک امریکی قانونی اداروں کی رسائی ممکن بنانے کی کوششوں کا حصہ بنتے ہیں۔ امریکی جاسوس ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر گھسا پھٹا مواد پوسٹ کرنے کے الزامات بھی عائد کیئے جاتے ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ محسوس ہوتی ہے کہ ٹیم کے ارکان محدود ہیں اور ہر ایک پوسٹ پر تحقیق اور اس کا مدلل جواب دینے سے قاصر ہیں۔ حیران کُن امر یہ ہے کہ یہ ٹیم انگریزی کے علاوہ جن تین زبانوں میں معلومات فراہم کرتی ہے وہ مسلمانوں کی زبانیں ہیں اور یہ صرف اسی موضوع پر بحث کرتے ہیں جو اسرائیل فلسطین تنازعہ، عراق، افغانستان، گوانتاناموبے اور دہشت گردی جیسے موضوعات کے تحت آتے ہیں۔ اردو اور فارسی میں معلومات کا تبادلہ ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہے جبکہ عربی زبان کی ٹیم بے پناہ مقبول ہو چکی ہے۔ اگر آپ کسی بھی مقبول سوشل نیٹ ورک، بلاگ یا ڈسکشن فورم میں امریکا کے خلاف کوئی تحریر لکھیں گے تو امریکی محکمہ خارجہ کے تحت قائم اس ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کے ارکان فوری اس کا جواب دینگے۔ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم اپنی پالیسی وضع کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہم مختلف فورمز اور بلاگز پر خود سے کسی موضوع پر بحث کا آغاز نہیں کرتے بلکہ پہلے سے جاری بحث میں شامل ہو کر لوگوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس یہ لوگ انٹرنیٹ پر ایسا مواد خود سے بھی پوسٹ کر رہے ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار موجود ہو ۔ عرب ممالک کے سائبر میڈیا کے بعد ایرانی اور پاکستانی زبانوں کے میڈیا پر یہ ٹیم امریکا کے لئے راہیں ہموار کرتی نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود اسے الزامات کے ساتھ ساتھ تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ لوگ جس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں وہ یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور امریکی حکومت کے سرکاری مؤقف کی بنیاد پر ہوتا ہے اور بعض اوقات ان کے گھسے پھٹے تبصروں سے یہی لگتا ہے کہ جو امریکا سرکار کہتا ہے وہی حق اور سچ ہے۔ انٹرنیٹ پر اس ٹیم نے اپنی شناخت یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نام سے کروائی ہوئی ہے اور ان کی وجہ سے آن لائن سائبر جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ مختلف فورمز، بلاگز اور ویب سائٹس پر یہ افراد اپنی موجودگی کے دو ہی مقاصد بیان کرتے ہیں۔ ایک مقصد مختلف ایشوز کے حوالے سے امریکی حکومت کا نقطہ نظر اور پالیسی بیان کرنا شامل ہے اور اس کے ساتھ مختلف موضوعات پر عربی، فارسی اور اردو زبان کے لوگوں کے جذبات، ان کی رائے اور تحفظات بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے منسلک امریکی اہلکاروں سے اپنی ملاقاتوں میں اُنہیںنہ صرف اِن جذبات اور آراء سے آگاہ کرنا ہوتا ہے بلکہ اپنی ہفتہ وار رپورٹس، میٹنگز اور مختلف تھنک ٹینکس کے سیمینارز اور کانفرنسز میں بھی اُجاگر کرنا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹیم پر امریکی جاسوس ہونے کا الزام بھی چسپاں ہو چکا ہے۔ اردو زبان کے بلاگز، ویب سائٹس اور فورمز پر امریکی مؤقف کا دفاع کرنے کے لئے ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کی طرف سے فواد نامی شخص کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ جو انٹرنیٹ کی دنیا میں امریکا مخالف مواد کا توڑ کرنے میں کوشاں رہتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امریکا کے حق میں پوسٹ ہونے والے تبصروں کے بعد پاکستانی سائبر شاہین اُن کے ساتھ اُلجھتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہی ہے کہ اُن پر امریکی تنخواہ دار اور یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار گنواتے رہتے ہیں۔بعض اوقات اپنے غیر مدلل اور گھسے پھٹے تبصروں کی وجہ سے بھی وہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کے ارکان کا سائبر سپیس میں انتہا پسندی کے خلاف امریکی جنگ کی اعانت کرنا، مشرق وسطیٰ اور ایشیاء بھر کے بلاگ لکھنے والوں کے ساتھ ٹیم کا چہچہانا دیکھ کر یہی تاثر اُبھرتا ہے کہ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف غیر مقبول امریکی پالیسیوں کا دفاع کرنا ہے۔ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ کی ٹیم براہ راست یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہے لیکن پاکستانی بلاگز، ویب سائٹس اور فورمز پر اُن کا پاکستانی سا ئبر شاہینوں سے ٹکرائو رہتا ہے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کے ساتھ پاکستانیوں کے تبصرے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ انتہائی محب وطن ہیں اور دلائل کے ساتھ نہ صرف مخالف کو چِت کرنے کا فن جانتے ہیں بلکہ بھرپور طریقے سے ملک اور اسلام کا بھی دفاع کر رہے ہیں۔ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کے پیچھے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی صورت میں ایک ادارہ موجود ہے لیکن پاکستانی سائبر شاہین اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں۔ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم پر امریکی جاسوس ہونے کے الزامات ہیں لیکن پاکستانی سائبر شاہین اپنی ذات میں نہ صرف خفیہ ایجنسی بلکہ پاکستان سائبر آرمی کا کردار بھی بھرپور طریقے سے ادا کر رہے ہیں اور یہ بات بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ اس وقت افواجِ پاکستان، آئی ایس آئی اور عوام ہی ہیں جو ملک کا بھرپور دفاع کئے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک پاکستان میں فوج، آئی ایس آئی جیسے ادارے موجود ہیں اور اُنہیں عوام کا تعاون حاصل ہے تو کوئی بھی طاقت اپنی ناپاک چالوں میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ امریکا اور چین کے ساتھ پاکستان کے باقاعدہ تعلقات کا آغاز انیس سو پچاس کی دہائی میں شروع ہوا۔ اس طرح دونوں ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ آج اگر پاکستان کے ساتھ امریکا اور چین کے تعلقات کا موازنہ کیا جائے تو امریکا کی بے وفائیاں بے شمار ہیں جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جبکہ چین کی وفائیں بے شمار ہیں۔اس کی وجہ شاید یہی ہے جو قرآن کہہ رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے بلکہ دشمن ہیں۔ اور ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ امریکا مسلمانوں کے جس فعل کی مخالفت کرے تو اُسے عین مسلمانوں اور اسلام کے حق میں سمجھیں اور جس کے حق میں بیان دے سمجھ لیں کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے حق میں نہیں ہے۔ سفارتی تعلقات شروع ہونے سے آج تک امریکا کی پاکستان کیساتھ ہونے والی بے وفائیاں لکھنا شروع کر دی جائیں تو پھر یہ تحریر ایک کتاب کی شکل اختیار کر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا آج پاکستانی عوام کی نظر میں ایک غیر قابل اعتبار دوست نما دشمن بن چکا ہے۔ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ (ڈاٹ) کی ٹیم کے حوصلوں کی داد دینی چاہئے کہ وہ جذبات کو پس پشت ڈال کر نہ صرف اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھا رہی ہے بلکہ امریکا کے ساتھ اپنی مکمل وفاداری کا ثبوت بھی پیش کر رہی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مبارکباد کے مستحق آن لائن بلاگز، ویب سائٹس اور فورمز کے وہ منتظمین ہیں جنہوںنے اپنے ہاں اس طرح کی ڈسکشن میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دی۔ سوال و جواب کرنے والوں کی معلومات اور بیان کردہ حقائق سے پڑھنے والے صارفین کو ایک ہی واقعے کے دو مختلف پہلو نظر میں آ جاتے ہیں اور ان کے پاس جب دو مختلف قطبی نقطہ نظر آ جاتے ہیں تو فیصلہ جو کہ یکطرفہ دلائل کی وجہ سے شاید صحیح نہ ہو مقابلے میں زیادہ سودمند ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو اس وقت انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اورڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کے محدود ارکان کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ لوگ نہ صرف اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں بلکہ امریکی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اگر امریکن اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرح ان کے پیچھے بھی کوئی ادارہ موجود ہوتا تو پھر ایک عالمی سائبر جنگ شروع ہونے کا اندیشہ تھا اور پھر جس طرح عراق اور افغانستان سے امریکا بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے انٹرنیٹ کی دنیا سے بھی بھاگنے پر مجبور ہو جاتا۔ انٹرنیٹ پر آئوٹ ریچ ٹیم اور پاکستانیوں کے خیالات اور نظریات میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔اس میں بھی شک نہیں کہ انٹرنیٹ پر بہت سا مواد حقائق کی بجائے قیاس پر مبنی ہوتا ہے لیکن آئوٹ ریچ ٹیم کی طرف سے بعض اوقات جس طرح کے تبصرے ہوتے ہیں اس سے یہی تاثر اُبھرتا ہے کہ یہ لوگ بھرپور طریقے سے امریکی پروپیگنڈہ کے ذریعے مخالفین کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرکے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم جب یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ٹھپہ لگا کر آتی ہے تو بعض اوقات عوامی تعصب اُن کے سچ کو بھی جھوٹ ہی سمجھتا ہے اور یہ کوئی بے جا تعصب نہیں بلکہ اس کے پیچھے ہمارے داخلی معاملات میں ان کی ضرورت سے زیادہ اَڑی ہوئی ٹانگیں ہیں۔ انٹرنیٹ پر صرف امریکا ہی نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے بھی اپنے خلاف مواد کا جواب دینے کے لئے ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم بنائی گئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں بھی مختلف دینی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے ڈیجیٹل آئوٹ ریچ ٹیم کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جو کہ انٹرنیٹ پر جاری ہونے والے ایسے مواد کا جواب دے سکے جو ملک خداداد پاکستان، اس کی افواج، خفیہ ایجنسیوں اور اسلام کے خلاف ہو۔ تحریر: تحریر: نجیم شاہ