یارک شائر برطانیہ کا ایک علاقہ ہے جہاں انیس سو ساٹھ میں امریکا نے اپنا جاسوسی مرکز قائم کیا ۔ اس مرکز میں گیند کی شکل کی تیس عمارتیں ہیں جن میں جاسوسی کے طاقتور ترین آلات نصب ہیں۔ امریکا کے جاسوسی مرکز کی ان تمام عمارتوں میں سے ہر ایک کے اوپر ایک بڑا سیٹلائٹ انٹینا نصب ہے جن کے ذریعے یہ مرکز مختلف ممالک کے بارے میں اطلاعات جمع کرکے امریکا بھیجتا ہے۔ اس مرکز کے اطراف کے برطانوی باشندے ہر ہفتے امریکا کے اس جاسوسی مرکز کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان برطانوی باشندوں کا کہنا ہے کہ اس مرکز میں جو کچھ ہوتا ہے وہ معمولی سیاسی جاسوسی ہی نہیں بلکہ یہاں سے تجارتی جاسوسی بھی کی جاتی ہے حتیٰ کہ یہاں لوگوں کے ذاتی ای میل بھی چیک کیئے جاتے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ کے آپس میں انتہائی گہرے روابط ہیں لیکن اسکے باوجود برطانیہ میں امریکا کا نجی جاسوسی نیٹ ورک انتہائی فعال ہے اور بھرپور طریقے سے کام کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ برطانوی باشندے یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ یارک شائر میں موجود جاسوسی مرکز سے نہ صرف اُن کی جاسوسی ہوتی ہے بلکہ امریکا ہمارے گھر میں بیٹھ کر ہماری ہی سرگرمیاں مانیٹر کر رہا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا نے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ میں توسیع کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
امریکا نے مختلف ممالک میں اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے علاوہ پرائیویٹ جاسوسی نیٹ ورک بھی پھیلا رکھا ہے اور اس نیٹ ورک کے لیئے نجی سکیورٹی کمپنیوں میں کام کرنے والے سی آئی اے اور اسپیشل فورسز کے سابق ارکان کو بطورِ کنٹریکٹر ملازم رکھا جاتا ہے جبکہ جاسوسی کے لیئے ٹارگٹ ممالک سے پے رول پر بھی ایجنٹ بھرتی کیئے جاتے ہیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ اس وقت پاکستان کو بھی درپیش ہے جہاں امریکا اپنے سفارت خانے کو توسیع دینے کے بہانے نہ صرف پاکستان اور اسکے پڑوسی ممالک پر کڑی نظر رکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنے قونصل خانوں کے علاوہ نجی جاسوسی نیٹ ورک بھی منظم کر چکا ہے۔ دنیا میں اب تک امریکا کا سب سے بڑا سفارت خانہ عراق میں ہے اور اس کی سکیورٹی بلیک واٹر کے سپرد ہے جبکہ اب یہی کام وہ پاکستان بھی کرنا چاہتا ہے۔ عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارتخانے کی مشکوک سرگرمیوں سے وہاں کے باشندوں اور بعض سیاسی پارٹیوں میں یہ شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ سفارتخانے کے عملے کی تعداد میں اضافے اور فوجیوں کو سفارتکاروں کے روپ میں لانے کا مقصد اس گمان کو تقویت دیتا ہے کہ امریکا یہاں معمول کی سرگرمیوں سے بڑھ کر کوئی خطرناک مشن انجام دینا چاہتا ہے۔امریکی سفارت خانے کی مشکوک سرگرمیوں کے باعث عراق کی صدر پارٹی یہ خدشہ ظاہر کر چکی ہے کہ امریکا یہاں اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے جبکہ عراق کے قومی اتحاد کے سینئر رکن انتفاض قنبرکے مطابق یہ سفارت خانہ اپنی قانونی سرگرمیاں پوری کرنے کے بجائے عراق کے سیاسی امور میں مداخلت کرتا ہے ۔
US IRAQ EMBASSY
افواج کی واپسی کے بعد بھی عراق میں امریکی سفارت خانے کی سرگرمیاں اس قدر مشکوک ہیں کہ خود امریکی صحافی جویش راگین اپنی وزارت خارجہ کی عراق بارے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کرتا ہے کہ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانہ ڈاکوئوں کا قلعہ ہے جبکہ یورپ کے بعض ذرائع ابلاغ بھی اس سفارت خانے کے عملے کو مالی دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔ 25اپریل 1980ء کو امام خمینی کے حمایتی طلباء نے جب تہران میں امریکی سفارتخانے پر قبضہ کیا تو وہاں سے برآمد ہونیوالی دستاویزات سے یہ ثابت ہوا کہ سفارت خانہ سازش اور جاسوسی اڈے کے طور پر سرگرم تھا۔ صرف مسلمان ممالک ہی نہیں بلکہ بعض غیر مسلم ممالک میں بھی امریکا اپنے مفادات کے حصول کے لیئے جاسوسی کر رہا ہے اور تقریباً ہر ملک میں اسکے سفارت خانے اور قونصل خانے جاسوسی کا اڈہ بن چکے ہیں۔2008ء میں برسلز حکام نے منسک میں واقع امریکی سفارتخانے کے عہدیداروں پر الزام عائد کیا کہ وہ بیلاروس کے شہریوں کو جاسوسی کی تنظیم کے لیئے بھرتی کرتے ہیں۔ اس الزام کے بعد حکام کے دبائو پر درجن بھر سفارت کاروں کو بیلاروس چھوڑ کر واپس امریکا جانا پڑا جبکہ حال ہی میں بولیویا کے صدر ایوو مورالیس بھی یہ وارننگ دے چکے ہیں کہ امریکا اُن کے اندرونی معاملات میں مداخلت ترک کر دے ورنہ ملک کے دارالحکومت لاپاز میں قائم امریکی سفارتخانہ بند کر دیا جائیگا۔ یاد رہے کہ 2006ء میں برسراقتدار آنے کے بعد ایوو مورالیس امریکی پالیسیوں پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ 2008ء میں بولیویا سے امریکا کے سفیر کو ملک بدر بھی کر دیا گیا تھا۔
US Embassy Islamabad
نائن الیون واقعہ کے بعد سے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی سرگرمیاں کسی محکوم کے ساتھ ایک حاکم کے طرزِ عمل جیسی بن گئی ہیں اور اسکے سفارتی عملہ نے خود کو قانون، اصول اور ضابطے سے مبرا سمجھ کر ہمارے قومی مفادات کے منافی کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کیا۔ مختلف ذرائع پاکستان میں حالیہ امریکی سرگرمیوں میں اضافہ دکھاتے ہیں جس میں مختلف قسم کی کارروائیاں شامل ہیں۔ ایسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ جس میں امریکی اور دیگر مغربی ممالک کے سفارتی اور دیگر افراد پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے متعلق کارروائیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان میں کثیر تعداد میں امریکی جاسوس تعینات ہیں جن میں سے کچھ سفارت کاروں کے روپ میں اور کچھ تجارتی پردے میں مقیم ہیں۔ ذرائع ابلاغ متواتر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی اور جاسوسی کی بہت سی وارداتوں میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور بلیک واٹر ملوث ہیں جبکہ ان جاسوس تنظیموں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں عقوبت خانے اور تفتیشی ٹارچر سیل تک قائم کر رکھے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ امریکی سفارتی عملہ نے اسلام آباد میں دو سو کے قریب گھر بھی کرائے پر حاصل کر رکھے ہیں جبکہ اب سفارت خانے کو توسیع دینے کے نام پر امریکا اپنے جاسوسی نیٹ ورک کو مزید وسعت دینے کی کوشش بھی کر رہا ہے تاکہ یہاں سے حساس اداروں اور مقامات کی جاسوسی کیساتھ پڑوسی ملکوںپر بھی نظر رکھی جا سکے۔
گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی خفیہ اداروں نے ایسے بہت سے جاسوس گرفتار کیئے جو امریکا کے لیئے کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد آئی ایس آئی کی طرف سے سی آئی اے کے سٹیشن چیف مارک کارلٹن کا نام منظرعام پر لانے کے بعد امریکی خفیہ ایجنسی کے لیئے مشکلات پیدا ہو گئی تھیں اور پھر اُسے واپس امریکا بلانا پڑا جبکہ اس سے پہلے امریکیوں کے پاکستان میں ایک اور درپردہ کارندے جانتھن بینکس کا نام اخبارات میں چھپنے کے بعد امریکیوں نے اسے فوراً پاکستان سے واپس امریکا بُلا لیا تھا لیکن اسکے باوجود امریکی میڈیا نے اس کا نام تک شائع نہیں کیا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں اب تک سی آئی اے کے کارندوں کے نام خفیہ رکھے جاتے ہیں اور ان کی ذمہ داریوں میں انٹیلی جنس کارروائیوں کی نگرانی اور ہدایات دینے کے علاوہ ڈرون حملوں کی نگرانی کرنا بھی شامل ہوتی ہے جبکہ ملک بھر میں پھیلے سی آئی اے کے ایجنٹ بھی اپنی خفیہ رپورٹس خطے میں موجود امریکی کمانڈر کو روزانہ تحریری طور پر ارسال کرتے ہیں۔آئی ایس آئی نے سی آئی اے کے سٹیشن چیفس اور دیگر ایجنٹوں کی اصلیت سامنے لاکر جہاں امریکا کے لیئے مشکلات پیدا کیں وہاں یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ دشمنانِ پاکستان کو بے نقاب کرتی رہے گی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ خفیہ اداروں نے اب تک جتنے بھی جاسوس گرفتار کیئے اُن میں سے بیشتر امریکی سفارتخانوں کے عہدیداروں اور اعلیٰ حکومتی حکام کی مداخلت پر نہ صرف رہا ہوئے بلکہ بحفاظت امریکا بھی بھجوائے گئے۔ یہاں تک کہ سرکاری سطح پر بھی پاکستان میں امریکی میرینز اور بدنام زمانہ بلیک واٹر کی موجودگی کا انکار کیا گیا۔
ہمارے حکمرانوں کو پتہ نہیں کیا ہو گیاہے کہ اب ہم اپنے معاملات کو بھی امریکی عینک سے دیکھتے ہیں۔ امریکی ذہن سے سوچتے اور امریکی زبان سے اظہار مدعا بھی کرتے ہیں۔ کیا امریکا کا خوف اس قدر ہماری رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے کہ ہم دشمنوں اور سازشیوں کو بے نقاب نہیں کرینگے اور غنیم کے مورچے کو بھی دوستوں کا خیمہ سمجھتے رہیں گے تو اس بحران کا سامنا کیسے کرینگے جو ہماری رگ و جان تک آن پہنچا ہے۔ ہماری انہی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اب امریکا اپنے سفارتخانے کو توسیع دیکر ایک چھائونی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جسکے بعد جدید ترین جاسوسی اور سیٹلائٹ آلات سے لیس یہ عمارت پاکستان کیلئے بڑا سکیورٹی رسک بن جائے گی کیونکہ اس سفارت خانے کی تعمیر کی صورت میں ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم، سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہائوس کے علاوہ سول سیکرٹریٹ، پنجاب ہائوس، سندھ ہائوس، بلوچستان ہائوس اور خیبرپختونخواہ ہائوس سمیت تمام اہم اور حساس دفاتر جو کہ ریڈزون میں موجود ہیں وہ امریکیوں کی نگرانی میں آ جائینگے۔ یہاں تک کہ نہ صرف آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کی نگرانی بھی آسان ہو جائے گی بلکہ جوہری تنصیبات بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔انٹرنیشنل اینیلیسٹ نیٹ ورک کی رپورٹ جو 2009ء میں ایشین ایج نے شائع کی تھی اُس کے مطابق اس بات کے ٹھوس اور واضح ثبوت ہیں کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے جبکہ امریکی سفارتکار کہوٹہ کی جاسوسی بھی کر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکی سہالہ پولیس تربیتی کالج کے ذریعے بھی کہوٹہ کی جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ امریکی سفارت خانے کے توسیعی منصوبے پرصرف پاکستانی عوام اور اسکے سکیورٹی اداروں کو ہی تشویش نہیں بلکہ پڑوسی ملک چین بھی اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ چینی سفارت خانے میں خصوصی بریفننگ دیتے ہوئے پاکستان میں متعین چینی سفیر یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ امریکا اپنے سفارت خانے کی توسیع کے وقت پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں اور قوانین کو ملحوظ خاطر رکھے۔ اس کے علاوہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں محب وطن افراد نے امریکی سفارتخانہ کے توسیعی منصوبے کے خلاف کئی آئینی درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں جن میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ امریکی سفارتخانے کو توسیع دینا نہ صرف ملکی سلامتی کے خلاف ہے بلکہ ویانا کنونشن انیس سو چھیانوے کے آرٹیکل گیارہ کی بھی خلاف ورزی ہے۔ توسیعی منصوبے کی صورت میں سفارتخانے کا رقبہ وائٹ ہائوس سے بھی بڑھ جائیگا اور پھر یہ سفارت خانہ امریکی بیس میں تبدیل ہو جائیگا جہاں سات ہزار تک افراد کا قیام ممکن ہو سکے گا حالانکہ پاک امریکا معاہدے میں 750 افراد سے زیادہ سفارتی عملہ رکھے جانے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ امریکی سفارتخانے کی ساتویں منزل سے حساس اداروں اور مقامات کی نہ صرف نگرانی ہوگی بلکہ خدانخواستہ دہشت گردی بھی ہو سکتی ہے۔