مصر : ( جیو ڈیسک ) مصر کی صدارت کے امیدوار امر محمد موسی مصر کے وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں اور ملک کی صدارت کی دوڑ میں شمولیت سے قبل سنہ دو ہزار گیارہ تک وہ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ ذرائع سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مصر کو افراتفری کی حالت میں چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کا مقصد ملک کی تعمیرِ نو جمہوریت، اصلاح اور ترقی کے اصولوں پر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں ایسی اقتصادی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو غریبوں کے لیے فائدہ مند ہوں۔ امر موسی کو مصریوں میں مقبولیت حاصل ہے اور انہیں صدارت کے لیے ایک موزوں امیدوار مانا جا رہا ہے۔
فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید نے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے اور سنہ دو ہزار میں ان کا نام ایک متنازع پاپ گانے کا حصہ بھی بنا جس کے بول تھے، مجھے اسرائیل سے نفرت ہے مگر امر موسی میرے محبوب ہیں۔ جب مصر کے اس وقت کے صدر حسنی مبارک نے انہیں وزیرِ خارجہ کے عہدے سے الگ کر کے عرب لیگ کا سیکرٹری جنرل بنایا تھا تو یہ افواہیں بھی سامنے آئی تھیں کہ صدر مبارک انہیں اپنا مضبوط ترین حریف سمجھنے لگے تھے۔ وزیرِ خارجہ کے عہدے سے الگ ہونے کے باوجود عمرو موسی منظر سے غائب نہیں ہوئے اور بطور سیکرٹری جنرل عرب لیگ ان کی کارکردگی نے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں ایک سیکولر ذہن اور بین الاقوامی پہچان رکھنے والا صدارتی امیدوار ہونے کے وجہ سے امر موسی نئی مصری پارلیمان میں اسلام پسندوں کی اکثریت کی موجودگی میں توازن قائم رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔وہ مصر میں پارلیمانی انتخابات سے قبل صدارتی الیکشن کے حامی تھے لیکن جب ایسا نہ ہو سکا تو انہوں نے اکثریتی جماعت اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کے نتائج تسلیم کیے جانے چاہیں کیونکہ یہی جمہوریت ہے۔گزشتہ برس مصر میں ہونے والی عوامی بغاوت میں انہوں نے جمہوریت پسند کارکنوں کا ساتھ دیا تھا لیکن پچھہتر سالہ عمرو موسی ہمیشہ سے ہی نوجوان لبرل کارکنوں کے حامی نہیں رہے اور مصر میں احتجاجی ریلیوں میں ان پر سابق حکومت کا ساتھ دینے کا الزام بھی لگا۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ساری عمر مصر کے لیے کام کیا اور اب بطور صدر اس کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔انیس سو چھتیس میں پیدا ہونے والے امر موسی نے انیس سو ستاون میں جامعہ قاہرہ سے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا سفارتی کیریئر شروع کیا۔ انہوں نے کئی ممالک میں مصر کے سفارتخانوں اور اقوامِ متحدہ میں مصر کے مشن میں کام کیا جس کے بعد انیس سو اکیانوے میں انہیں ملک کا وزیرِ خارجہ بنا دیا گیا اور وہ دس برس تک اس عہدے پر فائز رہے۔ عرب لیگ میں منتقلی کے بعد عمرو موسی مغرب کے نقاد کے طور پر سامنے آئے اور انہوں نے دو ہزار تین میں عراق میں امریکی کارروائی پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے دو ہزار چھ کے فلسطینی انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے پر مغربی ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔جہاں عام عرب ان کی کارکردگی کے معترف ہیں وہیں عرب لیگ میں ان کے سارے ساتھی انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ ان پر مفاد پرستی اور تنظیم کے رکن ممالک کو یکجا نہ کرنے کے الزامات لگے۔ عرب لیگ میں ان کا آخری چیلینج رکن ممالک کو لیبیا میں نیٹو کی بمباری کی حمایت پر آمادہ کرنا تھا۔ تاہم جب لیبیا میں شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا تو امر موسی اپنے فیصلے پر کسی حد تک پچھتاتے بھی نظر آئے۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر وہ مصر کے صدر منتخب ہوگئے تو یہ ایک ایسا وقت ہوگا جب مصر کو مشکل حالات کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں خطرات سے بھرپور خارجہ پالیسی رکھنے کا وقت جا چکا ہے۔ ماضی میں اسرائیل پر تنقید کے باوجود اب ان کا ماننا ہے اسرائیل سے کیا گیا امن معاہدہ ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔ عمرو موسی کے خیال میں مشرقِ وسطی میں جمہوری تبدیلی کی ترویج کے لیے مصر کا کردار مرکزی ہوگا اور یہ مقصد سفارتکاری اور خود مثال بن کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے