شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔ 1852 میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کیں۔
امیر مینائی مولوی کرم محمد کے بیٹے اور مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تھے۔ لکھنو میں پیدا ہوئے درسی کتب مفتی سعد اللہ اور ان کے ہمعصر علمائے فرنگی محل سے پڑھیں۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت تھی۔
شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔ 1852 میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کیں۔ 1857 کے بعد نواب یوسف علی خاں کی دعوت پر رامپور گئے۔
ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے ان کو اپنا استاد بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رامپور چھوڑنا پڑا۔ 1900 میں حیدرآباد گئے وہاں کچھ دن قیام کیا تھا۔ کہ بیمار ہوگئے۔ اور وہیں انتقال کیا۔
متعدد کتابوں کے مصنف تھے ۔ ایک دیوان غیرت بہارستان ، 1857 کے ہنگامے میں ضائع ہوا۔ موجودہ تصانیف میں دو عاشقانہ دیوان مرا الغیب ، صنم خانہ عشق اور ایک نعتیہ دیوان محامد خاتم النبین ہے۔ دو مثنویاں نور تجلی اور ابرکرم ہیں۔ ذکرشاہ انبیا بصورت مسدس مولود شریف ہے۔ صبح ازل آنحضرت کی ولادت اور شام ابد وفات کے بیان میں ہے۔ چھ واسوختوں کاایک مجموعہ بھی ہے۔
نثری تصانیف میں انتخاب یادگار شعرائے رامپور کا تذکرہ ہے، جو نواب کلب علی خان کے ایما پر 1890 میں لکھا گیا۔ لغات کی تین کتابیں ہیں۔ سرمہ بصیرت ان فارسی عربی الفاظ کی فرہنگ ہے جو اردو میں غلط مستعمل ہیں۔ بہار ہند ایک مختصر نعت ہے۔ سب سے بڑا کارنامہ امیر اللغات ہے اس کی دو جلدیں الف ممدودہ و الف مقصورہ تک تیار ہو کر طبع ہوئی تھیں کہ انتقال ہوگیا۔