وجھ شھرت :: انتظار حسین اردو کے مایہ ناز افسانہ نگار
انتظار حسین 7 دسمبر، 1925 کو میرٹھ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
سوانح پہلا افسانوی مجموعہ گلی کوچے 1953 میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
فن انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب ، بدلتے لہجوں اور Craftingکے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا ، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتائو کرنا چاہا ہے۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت کاایک ریلا سا آتا ہے جس نے آج کے سنجیدہ قاری کے پاں اکھاڑ رکھے ہیں۔ ان کی خود ساختہ صورت حال حقیقت سے بہت دور ہے۔ اس طرح کی صورت حال Fantasyکے حوالے سے یورپ میں سامنے آئی۔
ماضی پرستی ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے ۔ ان کے یہاں پچھتاوےNastalgiaکلاسیک سے محبت ،ماضی پرستی ، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی Values کے بکھرنے اور نئی ویلیوز کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار ، بہت جگہ پر انداز اور لہجہ بہت Bitter ہوجاتا ہے۔ اور بہت انتشار سے بھر جاتا ہے۔ ایسی انداز یہ واردات اس کی ساری تحریروں کے باطن میں موجود ہے اور واضح نظر آتی ہے
علامت وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرپرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔ اس میں ویسی ہی کشش ہے جو چاندنی راتوں میں پرانی عمارتوں میں محسوس ہوتی ہے۔
اساطیر ویسے بھی انتظار حسین کا فن عوامی نہیں۔ انہوں نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا ۔ ان کے افسانے کا اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ ہونا بھی لازمی ہے۔ ہجرت کے حوالے سے ایک خاص طرح کی Tensionانتظار حسین کے ہاں جاری و ساری ہے۔ اس صورت حال سے وہ خود کو لاجیکل طور پر الگ نہیں کر سکے۔ انہیں زندگی کی ظاہری بناوٹ سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ باطن میں جو Phase چل رہی ہے اس کا خیال رکھتے ہیں۔
یہی باطن کی غوطہ زنی اور اسلوبیاتی تنوع انتظار حسین کی پہچان ہے۔ لیکن وہ اسے فکری اور نظری پسماندگی کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ فرد کی انفرادی سطح پر اخلاقی جدوجہد کو بے معنی قرار دیتے ہیں ۔ یہی موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح وہ مقام ہے جہاں پر انتظار حسین افسانے کے پیش منظر میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔
تصانیف آخری آدمی افسانے آگے سمندر ہے ۔ ناول بستی ۔ ناول جل گرجے ۔ داستان چاند گہن ۔ ناول چراغوں کا دھواں ۔ آپ بیتی خالی پنجرہ ۔ افسانے خیمے سے دور ۔ افسانے دلی تھا جس کا نام ۔ آپ بیتی دن ۔ ناولٹ شہر افسوس ۔ افسانے کچھوے ۔ افسانے کنکرے ۔ افسانے گلی کوچے ۔ افسانے