سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں تجاوزات ہٹانے کا حکم آتے ہی میئر کراچی سمیت پورا KMC عملہ یوں حرکت میں آیا کہ جیسے یہیں وہ لوگ ہے جو عدلیہ کا حکم بجالانے والے ہیں باقی کوئی نہیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی خوبصورتی اور رونق بحال کرنے کے لیے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تو صوبائی اور شہری حکومت نے آنکھ بند کرکے عمل درآمد شروع کردی اور شہر کی خوبصورتی بحال کرنے کے بجائی شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کرادیا ، کراچی شہر کے بیشتر علاقوں میں جگہ جگہ بینرز،اشتہارات اور ہورڈنگز کے علاوہ دوکانوں کے چھجوں کا ملبہ نظر آتا ہے ، جس سے تجارتی و رہائشی علاقوں کا حسن برباد ہوکر رہ گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر موجود پتھارے بھی ہٹادئے گئے جس کی وجہ سے دوکانداروں کے ساتھ پتھاریدار بھی بے روز گار ہوکر فاقوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔
تجاوزات کے نام پر جاری آپریشن گر چہ قانونی قرار دیا جاتا ہے مگر کراچی کے بیشتر تاجر و صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ قانونی و غیر قانونی تفریق کے بغیر ہی کراچی میں توڑ پھوڑ جاری ہے ، غیر قانونی دوکانوں کے ساتھ قانونی دوکانیں بھی گیرائی جارہی ہیں ، میئر کراچی اور صوبائی حکومت کو بار بار آگاہ بھی کیا گیا مگر وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں صرف عدلیہ کا حکم بجالانے میں مصروف ہے ، جبکہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی درخواستیں لگائی مگر وہاں بھی شنوائی نہیں ہوتی ہے ، ہم اپنے ہی ملک میں پرایا ہوگئے ہے ، ہمارے ساتھ دوشمن سے بھی بتر سلوک کیا جارہاہیں ۔تجاوزات کے نام پر جاری اس آپریشن کے بیشتر متاثرین کا بھی کہنا ہے کہ ہمیں قانونی طور جگہیں حاصل تھی اور یہ شہری حکومت اور صوبائی حکومت دونوں کو معلوم تھی مگر اس کے باوجود ہماری دوکانیں مسمار کردی گئی جو کہ سراسر ناانصافی ہے ، اگر ہماری دوکانیں غیر قانونی تھی تو بلاول ہائوس اور ایم کیوں ایم بہادر آباد کا دفتر یا عمران خان صاحب کا گھر بنی گالا کونسا قانونی ہے ؟
کراچی میں حالیہ تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن میں بیشتر تجاوزات پیپلز پارٹی و ایم کیوں ایم کے دور میں بنیں، بلکہ خود پیپلز پارٹی و ایم کیوں ایم کے ذمے داروں نے پیسے لیکر تجاوزات والوں کو غیر قانونی طریقے سے قا نونی سپورٹ فراہم کیے اور ان کو اپنی قیادت کی بھر پور حمایت بھی حاصل تھی۔ آج بھی دونوں سیاسی جماعتیں اپنے دور میں بننے والی تجاوزات کو بچانے میں مصروف ہے۔ جبکہ اب اطلاع ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن پر تشویش کا اظہار کردیا ، ساتھ ہی ساتھ دبے لفظوں میں آپریشن کی حمایت بھی کی مگر اپنے جماعت کراچی کے ذمہ داروں ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں اور گورنر سندھ کی تحفظات کو مددے نظر رکھتیں ہوئے عدالت عظمیٰ سے تجاوزات کے خلاف آپریشن پر نظر ثانی کی درخواست کردی ۔
سپریم کورٹ نے کراچی کو خوبصورت شہر بنانے کے لیے غیر قانونی ، بے ڈھب اور شہریوں راہ میں رکاوٹ بننے والی تجاوزات کو ہٹانے کا حکم دیاتھا ۔ دوسری بات کہ سپریم کورٹ کو حکم جاری کرنے کے بعد اس پر خصوصی چیک رکھنے کے لیے بھی ایک ٹیم مقرر کردینی چاہئے تاکہ کسی غیر قانونی جگہ کہ ساتھ قانونی دوکان تو مسمار نہیں کی جارہی ہے ۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بغیر کسی ٹو س منصوبہ بندی کے شروع کئے جانے والے آپریشن سے غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ، ابتدہ میں کچھ قوم پرست عناصر نے تو اس آپریشن کو ایک قوم کہ ساتھ ظلم قرار دیا تھا مگر اب سب قوموں کے افراد کی دوکانوں کی مسماری نے تو اس قوم پرست جماعت کو خاموش کردیا ہے ، مگر جو نقصان غریب پتھارے والوں کو ہوا ہے یا مسمار کیے جانے والے دوکانوں کے مالکان یاان کے مزدور کو اس کا کون ذمہ دار ہے؟
میئر کراچی تجاوزات کے خلاف آپریشن میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے ، وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہے کہ کو اعلیٰ عدلیہ کی بڑی عزت و احترام کرتا ہے ، کرنا بھی چایئے مگر صرف و صرف غریب پرور لوگوں کے دوکانیں اور پتھارے مسمار کرنے کے لیے عدلیہ کی عزت باقی اور بھی کئی سارے حکم عدلیہ نے میئر صاحب اور ان کی جماعت کے حوالے سے جاری کیے تو کیا میئر صاحب اس پر عمل ہوا یا ہوگا؟
تجاوزات کے خلاف آپریشن گر چہ دروست ہے مگر منصوبہ بندی سے، جس طور طریقے سے موجودہ آپریشن جاری ہے اس سے صرف غریب و کاروبای طبقہ متاثر ہورہاہے ، ٹھیک ہے جو دوکان آپ نے مسمار کی وہ غیر قانونی ہوگی ، مگر اس دوکان سے صرف وہ جو اس دوکان میں بیٹھے ہوئے ہے چاہئے و مالک ہو یا مزدور متاثر نہیں اس کے ساتھ دور دراز علاقوں میں موجود وہ لوگ بھی متاثرہے جو مختلف اشیاء بناکر اس دوکاندار کو فروخت کر رہے ہیں۔ اگر صحیح منصوبہ بندی کے تحت تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوتا تو کبھی بھی کسی فلاحی اداریں کو متاثرین کے لیے امدادی پیکچ کا اعلان نہیں کرنا پڑتھا۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے دو بڑے فلاحی اداروں (عالمگیر ویلفیئراور سلانی ویلفیئر)نے تجاوزات آپریشن کے متاثرین کے لیے خصوصی امدای پیکچ کا اعلان کیاتھا ، جو متاثرین کے ساتھ ہمدردی تو ہے مگر سفید پوش متاثر کے لیے توہین ہے۔
عدلیہ ،وفاقی و صوبائی اور شہری حکومت کی سب سے پہلے یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کی تہہ تک پہنچے کہ یہ تجاوزات کب و کس کے کہنے پر بنی ؟ ان غیر قانونی دوکانوں کو کس نے بجلی فراہم کی ؟ کس نے انہیں جگہیں دی؟ اس کی تحقیقات کے بعد ان ذمے داروں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے ۔ مزید دوکانوں کو مسمار کرنے سے پہلے ان کے لیے کوئی اور جگہ مختص کی جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کماسکے ، جو دوکانیں یا پتھارے چاہئے و قانونی ہو یا غیر قانونی مسمار ہوگئی ہے ان کے لیے ہنگامی بنیاد پر سرکاری پیکج کا اعلان کیا جائیں،یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔