اسامہ بن لادن کی روپوشی اور ہلاکت کی تحقیقات کرنے والے اعلی اختیاراتی کمیشن نے پاکستان میں جاسوسی کے قومی ادارے انٹیلی جنس بیورو کو وزیراعظم کے بجائے وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی سفارش کی ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں اس کمیشن کی رپورٹ میں انٹیلی جنس بیورو کے بارے میں ایک خصوصی باب تحریر کیا گیا ہے جس میں یہ سفارش بھی شامل ہے۔ کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کے ارکان کی رائے ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کو وزیراعظم کی ماتحتی سے نکال کر وزارت داخلہ کی ماتحتی میں دے دیا جائے۔ قواعد کے مطابق انٹیلی جنس بیورو براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرتا ہے۔ یہ رپورٹ مکمل ہونے کے بعد وزیراعظم کو پیش کی جائے گی۔ کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کو موجودہ حالت میں ایک ایسا نا اہل ادارہ قرار دیا گیا ہے جس کا قومی سلامتی میں کوئی کردار نہیں ہے۔ کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی روپوشی اور ہلاکت کے واقعات کے بارے میں جب کمیشن نے انٹیلی جنس بیورو کی رائے طلب کی تو اس ادارے نے اس معاملے پر کسی بھی قسم کی رائے دینے سے انکار کیا تھا۔ بیوروکے اس وقت کے سربراہ جاوید نور نے کمیشن کے طلب کرنے کے باوجود اس کے سامنے پیش ہونے سے معذرت کرتے ہوئے کمیشن کو بتایا کہ اسامہ بن لادن انٹیلی جنس بیورو کے مینڈیٹ میں نہیں آتا اس لیے وہ کمیشن کے سامنے اس بارے میں کوئی جواب دہی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کمیشن کی جانب سے دوبارہ اور سختی سے طلبی پر جاوید نور ارکان کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ ان کا کام صرف اور صرف سیاست دانوں پر نظر رکھنا ہے۔ ذرائع کے مطابق بیورو کے سربراہ نے کمیشن کو بتایا کہ انہیں وزیراعظم کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ ان کے ادارے کے وسائل حکومت کے سیاسی عزائم کی تکمیل پر صرف کیے جائیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ کے مطابق ان کے ادارے نے پچھلے کئی سال سے قومی سلامتی سے متعلق کوئی اہم کام نہیں کیا ہے اور اس عرصے میں اس کے اہلکار صرف سیاستدانوں کی جاسوسی اور سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث رہے ہیں۔ کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کے تہلکہ خیز بیان کے بعد کمیشن ارکان نے اس ادارے کے قومی کردار پر ایک طویل مضمون لکھا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ انٹیلیجنس بیورو اپنی موجودہ حالت میں ملک کی کوئی خدمت نہیں کر رہا بلکہ وزیراعظم وقت کے سیاسی مشیر کا کردار ادا کرتا ہے۔