اوبامہ کی جیت اور قیام امن

Rohail Akbar

Rohail Akbar

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں براک اوباما دوسری بار صدر منتخب ہوگئے1912ء سے اب تک امریکہ میں کل17 صدور برسرِ اقتدار رہے ہیں جن میں سے9 کا تعلق ریپبلکن جبکہ8 کا ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔ان 17صدور میں سے فرینکلن ڈی روزاولٹ وہ واحد صدر ہیں جنہوں نے چار بار امریکہ کی صدارت سنبھالی۔ ماضی قریب میں مسلسل دو بار صدر بننے والوں میں بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور رانلڈ ریگن شامل ہیں امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے بعد سے امریکہ میں کسی بھی صدر کے دو سے زیادہ بار انتخاب میں حصہ نہ لینے کی روایت قائم تھی جو کہ فرینکلن ڈی روزاولٹ نے توڑی۔ تاہم اس کے بعد سے امریکی آئین میں بائیسویں ترمیم کے تحت اس روایت کو قانون بنا دیا ہے براک اوباما سے قبل دو مرتبہ منتخب ہونے والے آخری صدر جارج ڈبلیو بش تھے۔ جو دو ہزار ایک میں صدر بنے اور دو ہزار نو میں براک اوباما کے صدارت سنبھالنے تک اس عہدے پر موجود رہے۔بش دور میں ستمبر دو ہزار ایک میں امریکی شہر نیویارک میں ہونے والے حملوں کے بعد دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ شروع ہوئی اور یہی جنگ ان کی صدارت کا محور رہی صدر براک اوباما اپنے حریف ریپبلکن پارٹی کے مٹ رومنی کو شکست دے کر دوسری اور آخری مدت کے لیے امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ انھوں نے 303 جب کہ رومنی نے 206 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔وائٹ ہاس میں پہنچنے کے لیے صدارتی امیدوار کو538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔فتح کے بعد شکاگو میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے اپنے حریف مٹ رومنی کو ایک اچھا مقابلہ کرنے پر مبارکباد دی ہے اور وہ چاہیں گے کہ ان کے ساتھ مل کر امریکیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کریں۔میں زیادہ پر عزم اور پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ کام کرنے کے لیے وائٹ ہاوس واپس جا رہا ہوں مٹ رومنی نے شکست کے بعدٹیلی فون کر کے صدر اوباما کو ان کی جیت پر مبارک باد دی صدر اوباما کے لیے خارجہ پالیسی میں سب سے مشکل معاملہ اسرائیلی صدر بنیامن نتن یاہو کے ساتھ تعلقات رہا ہے۔

اوباما کی جگہ ان کے حریف مسٹر مِٹ رومنی کو وائٹ ہاس میں دیکھنے کی مسٹر نتن یاہو کی خواہش دل میں ہی رہ گئی۔تاہم اس موقع پر مسٹر نتن یاہو نے صدر اوباما کی جیت پر ان کو مبارکباد بھیجی اور یہ بھی کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان دفاعی اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔تاہم مستقبل میں ان تعلقات میں کئی اتار چڑھا آ سکتے ہیں صدر اوباما کی فتح چین میں ایک دہائی ہونے والی ایک تبدیلی سے ایک دن پہلے آئی ہے۔ اس لیے چین کی ساری توجہ اس وقت اپنے ملک میں ہی مرکوز ہوگی نہ کہ بحرالکاہل کے اس پار۔لیکن انتخابی مہم کے دوران دونوں امیداوار چین کے لیے اہم تھے کیونکہ جو بھی جیت حاصل کرتا وہ چین کے ناروا تجارتی عمل کی بات اٹھاتا۔

معاشی معاملوں پر حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی رہی ہے۔بیجنگ کو صدر اوباما کے ایشیا میں جنگی محور بنانے سے پریشانی ہے۔ چند حکام کا ماننا ہے کہ واشنگٹن چین کے عروج پر لگام چاہتا ہے۔ یہ وہ اہم مسئلے ہیں جو یقینی طور پر آنے والے دنوں میں سفارتی رشتوں پر چھائے رہیں گے۔افغانستان میں ہر چیز اب امریکی قیادت میں جنگی مشن کے خاتمے کے عینک سے دیکھی جا رہی ہے اور کمانڈر ان چیف میں کوئی تبدیلی افغان کے تئیں امریکی پالیسی میں زیادہ تبدیلی کا باعث نہیں ہوتی کیونکہ دونوں امیدوار میں اس معاملے میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے اس کے کہ مٹ رومنی نے کہا تھا کہ وہ میدان جنگ میں موجود جرنیلوں کی زیادہ سنتے۔اوباما کے سامنے یہ سوال ہے کہ وہ کتنی جلدی فوج کو واپس بلاتے ہیں اور دوہزار چودہ کے بعد وہاں کتنی فوج رہے گی۔ ملٹری کمانڈر چاہیں گے کہ انخلا رفتہ رفتہ ہو اور دس ہزار سے زیادہ تعداد میں فوج یہاں رہے۔ لیکن نئے انتخاب کے بعد وائٹ ہاس مزید سریع انخلا پر زور دے گا اور دوہزار چودہ کے بعد وہاں کم فوجی رہ جائیں۔ایران میں کئی لوگوں کو خدشہ تھا کہ ریپبلکن کی جیت کا مطلب جنگ ہے اور براک اوباما کی جیت کا مطلب ہے لوگوں کی جان کی حفاظت کیونکہ امریکہ ایران کے جوہری ارادوں کے بارے میں بات چیت کا ایک نیا دور شروع کرے گا پاکستان کی فوج جو ملک کی سلامتی کی پالیسی پر اختیار رکھتی ہے اس کے لیے روایتی طور پر ری پبلکن حکومت زیادہ اچھی رہی ہے۔ ڈیموکریٹک رہنما عام طور پر اپنی سول لبرٹی، جمہوریت اور جوہری ہتھیار کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے تئیں سرد رویہ رکھتے ہیں۔

Obama

Obama

صدر اوباما کے پہلے صدارتی دور میں امریکہ اور پاکستان کا رشتہ سب سے نچلی سطح پر رہے ہیں۔ امریکہ شدت پسند گروہوں کو پاکستان کے مبینہ تعاون پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر ڈرون حملوں، ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن اور پاکستانی سرحدوں پر نیٹوں حملوں پر ناراض رہا ہے۔لیکن اوباما کی جیت کا مطلب ہے افغانستان میں مجوزہ کھیل کا خاتمہ اور اس کے تحت پاکستان کے تعلق کی ایک واضح صورت سامنے آئے گی۔ پاکستان کی یہ شکایت رہی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی مبہم رہی ہے اور افغانستان میں قیام امن میں اس کے اہم کردار کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

تحریر : روہیل اکبر 03466444144