اولاد عطیہ خدا وندی

children

children

عملی طور پر بھی جانا جاتا ہے اور سُن بھی رکھا ہے کہ ”اولاد ” خدا کی نعمت ہوتی ہے۔اور اولاد والدین کیلئے عطیۂ خدا وندی بھی ہے لیکن جب تک اولاد کسی گھرانے میں پیدا نہ جائے اس کی محبت سے آشنا والدین نہیں ہوتے۔ اور جب تک اولاد نرینہ دنیا میں جلوہ گر نہ ہوجائے اس کی محبت کی چاشنی نہیں چکھی نہیں جا سکتی۔اولاد کی محبت لازوال ہوتی ہے یہ ماں باپ ہی بہت بہتر بتا سکتے ہیں۔چونکہ انسان کو اللہ ربّ العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس لئے اولاد کیلئے اُس نے محبت بھی والدین کے دلوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھررکھے ہیں۔

ویسے تو اولاد جانور بھی پیدا کرتے ہیں ، پھر پالتے پوستے ہیں اور جب اولاد بڑا یا بڑی ہو جائے تو تُو اپنے راستے جا اور میں اپنے راستے پر، مگر انسانوں کے یہاں یہ خصلت بالکل مختلف ہے۔ پیدائش سے لے کر بڑے ہونے تک اس کی تعلیم و تربیت ، رہن سہن، ادب و آداب یہ سب کچھ سکھائے جاتے ہیں۔اور بڑے ہونے کے بعد اس کی شادی اور پھر شادی کے بعد کی زندگی کا دارومدار سب کچھ تو والدین کے سَر ہے۔اور جو والدین اس پر کَھرا اُترتے ہیں وہی والدین دنیا میں سرخرو ہوتے ہیں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ سب کچھ سکھا نے کے بعد بھی اگر اولادِ نرینہ اس بات کو نہ سمجھے اور اپنی نافرمانیاں جاری و ساری رکھے تو ماں باپ کے دِلوں پر کیا قیامت گزرتی ہوگی۔ کیا یہ سوچنا اولاد کا کام نہیں ہے۔

آج کل چونکہ دیکھا بھی جا رہا ہے اور سُنا بھی جا رہا ہے کہ ہر طرف اولادوں کی نافرمانیاں عروج پر ہیں۔ ہر دوسری عورت اسی بات کا رونا روتے دیکھی جا تی ہے کہ اس کی اولاد نافرمان ہو گئی ہے۔ کوئی شادی سے پہلے، اورکوئی شادی کے بعد، شادی سے پہلے یوں کہا جا سکتا ہے کہ اولاد والدین کی باتوں کو نہیں مانتے، کمانے لگ جاتے ہیں تو ان کی دوا دارو کی فکر نہیں کرتے، انکی پریشانیوں کو سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور شادی کے بعد تو بس ایک ہی رونا ہوتا ہے والدین کا کہ جورو کا ہو گیا ہے ہماری سنتا ہی نہیں؟یہ سوالیہ نشان کب عبرت کا روپ دھارے گا۔ اور کب بوڑھے والدین اپنے بچوں سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ کب بچے ان پر مہربان ہونگے۔ یہ میں سب بچوں اور سب والدین کیلئے نہیں کہہ رہا کیونکہ اس دنیا میں ایسے بھی بچے ہیں جو اپنے والدین کا بھرپور خیال رکھتے ہیں اور انہیں نیک بچوں کی وجہ سے تو اس دنیا میں رنگ و نور کا گمان ہوتا ہے۔

کیا مشہور قول ہے کسی کا کہ اگر تم ٧٠ سال تک خانہ کعبہ کا طواف کر کے اس کی نیکیاں اپنی ”ماں”کو ہدیہ کرتے رہو تب بھی تم اس قطرے کا بوجھ ہلکا نہیں کر سکتے جو تمہاری بد سلوکی کی وجہ سے تمہاری ”ماں” کی آنکھ سے گِرا۔اپنے ماں باپ سے اونچی آواز میں بات کرنے والا دونوں جہان میں برباد ہے۔

ایک اور مفکر نے لکھا کہ اولاد کیلئے والدین کا پیغام ہے: جس دن تم ہمیں بوڑھا دیکھو صبر کرنا اور ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنا، جب ہم کوئی بات بھول جائیں تو ہم پر طنز نہ کرنا اور اپنا بچپن یاد کرنا، جب ہم بوڑھے ہو کر چَل نہ پائیں تب ہمارا سہارا بننا اور اپنا پہلا قدم یاد کرنا، جب ہم بیمار ہو جائیںتو وہ دن یاد کر کے ہم پر اپنے پیسے خرچ کرنا جب ہم تمہاری خواہشیں پوری کرنے کے لیے اپنی خواہشیں قربان کرتے تھے۔

ایک ماں سے کسی نے پوچھا کہ ” آپ کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے جو کہ ماں کی عزت کی نشانی ہے اگر آپ کو اللہ ربّ العزت سے اس کے بدلے کچھ مانگنا ہو تو کیا مانگیں گی؟ ماں نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ میں اپنے بچوں کا نصیب اپنے ہاتھ سے لکھنے کا حق مانگوں گی کیونکہ ان کی خوشی کے آگے میرے لئے ہر جنت چھوٹی ہے۔”

ماں باپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نیک راستہ سمجھائیں۔ اچھے اور بُرے کی تمیز دے، اور ظاہر ہے کہ ہر والدین اسی طور طریقوں پر چل کر اپنے بچوں کو یہی سب کچھ نوازتے ہیں یا نوازنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ وہ بھی اس لئے کہ وہ اپنے بچوں کو بے پناہ پیار کرتے ہیں۔ انہیں خوشیاں فراہم کرنے کیلئے اپنی خوشیاں تک قربان کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ مگر کیا؟ اولادوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ اپنے والدین کی دل جوئی کریں، ان کی محبت کا جواب اپنی محبت سے دیں۔ ان کے ہر جائز حکم پر لبیک کہیںجو کہ والدین کا حق بھی ہے اور انکی کی پُر خلوص محبت کا ورثہ بھی۔

آج دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ مہینوں کا کام منٹوں میں ہو رہا ہے۔اس کی مثال کے لئے صرف ایک جملہ ہی کافی ہوگا کہ پہلے خط لکھا جاتا تھا جو مہینوں میں کسی کے پاس پہنچتا تھا اور اب ای میل کا زمانہ ہے فوراً سے پہلے اُس تک پیغام رسانی ہو جاتی ہے۔تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اولاد اتنی تیز رفتاری سے اپنے ماں باپ کی محبتوں کو سمجھنے کا حوصلہ کیوں نہیں رکھتے۔ آج ٹی وی چینلز پر ہر روز کوئی نہ کوئی کہانی چل رہی ہوتی ہے کہ فلاں کے بیٹے نے ایسا کر دیا فلاں کے والدین نے ایسا کر دیا۔ زمانہ اس نہج پر ہے کہ ہر دوسرے شخص کو بچے اور والدین دونوں کے حقوق سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔تبھی جا کر اولادیں بھی اور ماں باپ بھی اس دنیا میں اور آخرت میں اپنے رب کے سامنے سُرخُروہو سکیں گے۔

اگر کسی والدین کو اس کی اولاد اس کے سچے اور پُر خلوص محبت کے بدلے شادی کے بعد کسی نہ کسی بہانے سے تنگ یا ستانا شروع کر دے تو کیا والدین بد دعا کریں گے شاید نہیں کیونکہ والدین تو ہوتے ہی سراپا محبت اور وہ کبھی اپنی اولاد کیلئے بد دعا نہیں کر سکتے یہ بات اُن اولادوں کو بھی جب ہی سمجھ میں آئے گا جب وہ خود والدین بنیں گے اور ان کے بھی بچے ہونگے ۔ تب ہی جاکر ان نافرمان اولادوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ بتاو اب تمہاری دلی کیفیات کیا ہیں۔اب سمجھے کہ ماں باپ کس ہستی کا نام ہے اور اولاد کیا ہے ۔ تم نے بھی تو وہی سب کچھ کیا تھا اپنے والدین کے ساتھ جو آج تمہاری اولاد تمہارے ساتھ کر رہی ہے۔ مگر اب تو صرف سمجھایا بلکہ ان کو بتایا ہی جا سکتا ہے۔ کیونکہ اب پچھتاوت کیا ہوت ۔۔۔۔۔! جب چڑیا چُگ گئی کھیت ۔۔۔۔۔!اسی موقعے کیلئے جنابِ شبنم رومانی صاحب کا یہ شعر یاد آتا ہے :

کل تک گھِرا ہوا تھا ‘ میں دو دشمنوں کے بیچ
اک سانپ راستے میں تھا اک آستیں میں تھا
ہر سنگِ میل پر مجھے گزرا یہی قیاس
زندہ گَڑا ہوا میں جیسے زمیں میں تھا

اگر اس شعر کی تشریح کرنے کی ٹھان لی جائے تو حقیقت میں اوراق کی کمی ہو جائے گی۔کیونکہ جنابِ شبنم رومانی صاحب کا یہ شعراپنے اندر سمندر کی سی گہرائی رکھتا ہے۔ اور اس شعر میں ہی والدین کیلئے بھی اور اولاد کیلئے بھی گہرا اور ذو معنی تشریح سموئے ہوئے ہے۔دیکھا جائے تو ”اولاد” پر مضمون نگاری ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر میں نے کوشش کی ہے اور میرے اس مضمون سے کتنے اولادوں اور کتنے والدین کا اس سے بھلا ہوتا ہے یہ تو اس مضمون کے چھپنے اور پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ خدا کرے کہ یہ مضمون ماں باپ اور ہمارے پیارے نونہالانِ وطن کی نظر سے گذرے اور اس مضمون سے استفادہ حاصل کریں اور والدین اپنے بچوں کا اور بچے اپنے والدین کا دامن نہ چھوڑیں۔اللہ ربّ العزت سے یہی دعا کے ساتھ اس مضمون کا اختتام چاہتا ہوں کہ خدایا! ہمارے بچوں کو والدین کا فرماں بردار بنا دے۔ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنا دے۔آمین۔تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
E-mail: jawediqbal_1@yahoo.com