قارئین کرام آج میں ایک سٹوری سے اپنا کالم شروع کر رہا ہوں شائد اس سے قبل یہ سٹوری کسی کالم میں لگ بھی چکی ہو کہتے ہیں ایک بوڑھا شخص سفر پر جا رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایک باریش بزرگ بھی ہو لیا کافی سفر کے بعد بوڑھے نے اس باریش شخص سے اس کا تعارف چاہا باریش آدمی نے اسے کہا کہ وہ مجھ سے میرے بارے میں نہ پوچھے کیونکہ وہ ڈر سکتا ہے مگر بوڑھا بضد رہا تو باریش شخص نے اسے بتایا کہ وہ موت کا فرشتہ ہے اس نے ایک شخص کی روح قبض کرنا تھی مگر ابھی وقت بہت تھا تو میں وقت گزاری کے لئے تمارے ساتھ ہو لیا بوڑھا پہلے تو خوفزدہ ہوا مگر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے اس نے موت کے فرشتے سے پوچھا کہ وہ جاں کیسے قبض کرتا ہے تو اس باریش آدمی نے اسے بتایا کہ میں جس کی جان قبض کرنا مقصود ہوتا ہے میں اس کے پائوں کی طرف کھڑا ہوکر جان کو یعنی روح کو بلاتا ہوں اس طرح میں اس کی جان قبض کر لیتا ہوں۔
بوڑھا ڈرا ہوا تو تھا ہی اس نے باریش شخص سے وعدہ لیا کہ وہ جب اس کی جان قبض کرے اس کو نظر آئے خیر باریش شخص نے اس سے وعدہ کرلیا کچھ عرصہ بعد وہ بوڑھا بیمار ہو گیا آخر وقت مقرر آگیا اور موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے کے لئے آپہنچا اور اس کے پائوں کی طرف کھڑا ہو گیا بوڑھے نے جونہی اسے پائوں کی جانب کھڑے دیکھا تو اپنے پائوں دوسری طرف کر لئے تو فرشتہ دوسری جانب آگیا اسے دیکھ کر بوڑھے نے پھر اپنے پائوں چارپائی کی دوسے جانب کر لئے اس طرح جب بوڑھا پار بار چھلانگیں لگا رہا تھا تو اس کے پاس بیٹھے لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ پاگل ہو گیا ہے اس کے پائوں چارپائی سے باندھ دیئے یہ دیکھ کر فرشتہ اس پر ہنسا اور اس کی روح قبض کر لی آپ حیران ہوں گے کہ میں نے اتنی تمہید کیوں باندھی ہمارے سیاستدان نہ جانے شکست کے خوف میں کیوں پلٹے بازیاں کر رہے ہیں۔
انہیں یہ نہیں پتا کہ انہیں اس کا مزا چکھانے کے لئے ان کے اپنے ہی ان کے گرد موجود ہوتے ہیں میں یوں تو آج چکوال کی سیاست سے نکل کر ملکی سیاست کی طرف آنا چاہتا تھا مگر پھر چکوال کی سیاست درمیان میں اس لئے آجاتی ہے کہ ہمارے لیڈران بھی موت کے فرشتے یعنی شکست سے بھاگ کر اپنے گھونسلوں کی جانب بھاگنے کی کوشش میں لگے ہیں ان کے جانثار ساتھی ان کو چارپائی سے باندھنے کے لئے رسیاں ہاتھوں میں لئے کھڑے ہیں میں نے نئے سال کے آغاز پر اپنے لیڈراں کے بیانات کو پڑھا تو حیران رہ گیا کہ یہ لوگ کن خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں میں نائب وزیر اعظم چوہدری پرویز الٰہی کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کیونکہ وہ بھی چکوال سے ہی الیکشن لڑ رہے ہیں انہوں نے مولانا یعنی ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت کر کے ایک عجوبہ پیش کرنے کی کوشش کی اور میڈیا کی نظروں میں آنے کی کوشش کی اور میرے خیال میں کامیاب بھی رہے یہ اس صدی کے پہلے نائب وزیراعظم ہیں جو اپنی ہی حکومت گرانے کے لئے لانگ مارچ کرنے نکلنے والے ہیں میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ اب وہ غداروں یعنی جن لوگوں نے ان کی مخالفت کی ہے انہیں اپنے ساتھ نہیں ملائیں گے۔
PML N
مگر کچھ عرصہ اپنے الفاظ پر قائم رہنے کے بعد انہوں نے جوں ہی اپنے دروازے بے وفائوں کے لئے کھولے یعنی اب انہوں نے اپنے درینہ ساتھیوں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ پیدا کیا ہے لیڈراں کی تڑپ بھی دیکھنے کو ملی ہے انہوں نے اپنے درینہ ساتھی گوہر ایوب کو اپنے چرنوں میں بیٹھنے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ انہیں اپنے پہلو میں بیٹھا ہی لیا شاہد اب شیخ رشید بھی؟ جوں ہی چوہدری برادران نے سنا کہ اب مسلم لیگ ن میں ویکنسیاں خالی ہیں اور انہوں نے دبے الفاظ میں بغاوت کا اعلان کر دیا اور اپنے جانثاروں کے ہمراہ لانگ مارچ میں شمولیت کا عندیہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کچھ کچھ حمایت سے کر دیا ویسے سیاست میں ہر بات جائز ہوتی ہے ہمارے سیاست دان بھی جدھر اقتدار دیکھتے ہیں ادھر ہی ان کی ڈھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں پوزیشن اب یہ ہے کہ ہمارے لیڈراں پریشان ہیں کہ انہوں نے کسی کی جنگ کو اپنے صحنوں میں کیوں آنے دیا جس کے بعد لو اور وہ لوگ جو کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تبصرے کرنے پر مجبور ہیں کہ چوہدری برادران بھی اب شرمندہ ہیں کہ انہوں نے میاں برادران کو کیوں چھوڑا چلو کچھ عرصہ اقتدار کے مزے تو لوٹے مگر اب وہ بھی بے چین ہیں کہ کب ان کو بھی ،،،َ؟کیونکہ اب یہ بات عیاں ہے کہ اگلی حکومت کوئی جتنا زور لگا لے مسلم لیگ ن کی ہی ہو گی اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ سیاسی پرندے گھنوسلے بدل رہے ہیں تو ہر کوئی مسلم لیگ ن کی منڈیر پر بیٹھنے کو بے تاب ہے وہ لوگ جو مسلم لیگ ن کو برا کہتے نہیں تھکتے تھے وہ بھی مسلم لیگ ن کی غزلیں گاتے نظر آ رہے ہیں۔
اپنے ان جانثاروں کو کوستے نظر آرہے ہیں جن کے غلظ مشوروں کی وجہ سے آج وہ اس پوزیشن میں ہیں مگر ان کے دوست اب بھی رسیاں لئے کھڑے ہیں کہ ان کو کسی پارٹی سے باندھ ہی دیں انہوں نے تو نعرے تیار بھی کر رکھے ہیں کہ قدم بڑھائو بھائی صاحب اجل تمارے ساتھ ہے ان ان لوگوں کو شاہد شکست کا سامنا کرنا ہی پڑے گا کیونکہ ان کے اپنے جانثار ہاتھوں میں رسیاں لئے کھڑے ہین وہ جتنے مرضی ہے پہلو بدلیں۔
Riaz Ahmad Malik
تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں malikriaz57@gmail.com