اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
Posted on April 24, 2012 By Adeel Webmaster اقبال نوید
Kaghaz ki kashti
اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی
خدا جانےگریباں کس کے ہیں اورہاتھ کس کے ہیں
اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی
مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آئوں
بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی
خیالوں میں ہمیشہ اس غزل کو گنگناتا ہوں
کہ جو کاغذ کے چہرے پر کبھی لکھی نہیں جاتی
وہی رستے، وہی رونق، وہی ہیں عام سے چہرے
نوید آنکھوں کی لیکن پھر بھی حیرانی نہیں جاتی
اقبال نوید