ہمارے سیاستدانوں میں سے چند ایک کے سوا کوئی بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ میں بڑا محبِ وطن پاکستانی ہوں کیونکہ محبِ وطن تو وہ پاکستانی ہے جس کے پیٹ میں کچھ ہو یا نہ ہو اِس کے تن پہ لباس ہو یا نہ ہو مقامی کرپٹ اداروں کا مارا چاہے یہ خون میں لت پت ہی کیوں نہ ہو اور چھپنے کو بھی جگہ نہ مل رہی ہومگر کسی دوسرے ملک نا بھاگے یہاں تک کہ وہ اپنے حاکم کا ہر جبر سہے مگر اُف تک بھی نہ کہے مارا مارا قائد ڈونڈتا پھرے صرف اسی ہی سوچ میں کہ یہ بھی پاکستانی ہے میں بھی پاکستانی ہوں اس کے خلاف اعلانِ بغاوت کرکے آخر جانا ہی کہاں ہے۔
جبکہ بڑا محبِ وطن ہونے کا دعویدار اس کا حاکم مسلمان ہونے کے باوجود اسلامی تعلیمات پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کبھی سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ میں بھی تو مسلمان ہوں ، اور میرے دور اقتدار میں اگر ایک کتا بھی بھوک یا پیاس سے مر گیا تو کل قیامت کے دن میں اُس ذات پاک کے سامنے جس نے مجھے پیدا کیا اور اِس حاکمیت کے قابل بنایا کیا جواب دوں گا (قربان جائوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت پر) ہاں اگر سوچتا ہے تو ایک ہی بات سوچتا ہے کہ اب کس نئے نعرے پہ قوم کے ارمانوں کا خون کریں اگر کسی سوال کا جواب ہے تو وہ یہ ہے کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے کل بھی بھٹو زندہ تھا۔
ہاں بھئی اس بات کو تو میں بھی مانتا ہوں کہ اگر بھٹو صاحب شہد ہوگئے ہوتے تو ہمارا ہی یہ حال ہونا تھا؟ اور اس حاکم کے جبر کے خلاف جو بغاوت کا اعلان یا اعلانِ جنگ کر نے نکلاہے وہ اس سے بھی کچھ یوں آگے نکنے کی کوشش کرتا ہے کہ نورانی چہرے پر سنت رسول تو رکھتا ہے مگر جب نماز کا وقت ہوجائے تو وہ لوگو ں کو نماز کی اجازت دینے کی بجائے اپنی بین سنانے میں مصروف کئے رکھتا ہے۔
اگر کوئی آئینہ دکھائے تو اُس میں اپناچہرا دیکھ کر شرمانے کی بجائے کہتا ہے کہ آئینہ دکھانے والے کا ہی چہرا کالا ہے اور جس کے خلاف یہ لوگوں کو بھڑکاتا ہے اس دوران حقیقت میں وہ اندر سے اس کی کھلم کھلی حمایت کررہا ہوتا ہے کیونکہ حاکم کا کام بھی غیر ملکی اشاروں پر ناچنا ہے جبکہ اس کی ذمہ داری اُس سے بھی اس لئے زیادہ ہے کہ اس نے غیر ملکی اشاروں کے ساتھ ساتھ اپنے قائد کا ٹارگٹ بھی پورا کرنا ہے اور کرنا بھی وہی ہے جس کی ہدایت اس کے قائد نے اسی ہی شخصیت سے اس کے یہ عملی مظاہراکرنے سے قبل اپنے غیر ملکی دورہ کے دوران اُس وقت کی تھی جب لوگوں میں یہ چرچا پایا جات اتھا کہ صدر مملکت بھائی جان کو گرفتاری سے بچانے کیلئے وہاں گئے ہیں۔
اصل حقائق حال ہی میں لگنے والے لانگ مارچ کے نعرہ کے طور پر سامنے آئے اس دوران ملکی وغیر ملکی قائدین بھی اس مارچ میں اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی اپنے قائداعظم کے کہنے پر ہی کروائی مگر حیرا ی اس بات کی ہے کہ ایسا کیوں ہونے جا رہا تھا یا ہونے والا ہے ؟جس کا جواب کچھ یوںہوسکتا ہے کہ انتخابات عین سر پر آچکے تھے۔
برسر اقتدار قائد کی مقبولیت زیرو تھی جس کے سبب دوبارہ منتخب ہونا نہ ممکن تھااس لئے منصوبہ یہ بنا کہ پچھلے پانچ سال تو شیر والے کے سہارے گزار لئے اس دوران خود کے ساتھ کسی حد تک اسے بھی گندا کرنے کی کوشش کی گئی اب جب یہ اپنا کیچڑ دھونے میں مصروف ہے تو اس دوران کیوں نہ کوئی نیا ساتھی تلاش کرلیا یا بنا لیا جائے آخر غیر ملکی دورہ کے دوران اپنے پرانے ساتھیوں سے مل بیٹھ کر نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ قوم اب مجھے منتخب کرنا تودور کی بات دیکھنا بھی نہیں چاہتی لہذا تم لوگ خود کو قوم کے رنگ میں رنگ کے یعنی کہ خود کو لوگوں کے سامنے انتہا کا میرے خلاف ہونا ثابت کرتے ہوئے یا جیسے بھی ممکن ہو ویسے ہی انہیں مزید جوتے مارنے کیلئے ووٹ لو۔
Elections
اس طرح اگر سارے کے سارے ہمارے ہی لوگ نہ بھی منتخب ہوئے تو کچھ آپ کے ہونگے اور کچھ میرے ہم مل جل کے پھر سے خونی دربار لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے اب جاکے جب اس منصوبہ بندی کا پردہ چاک ہوتا ہوا محسوس کیا ہے کہ قوم کو تو آہستہ آہستہ اس بات کا بھی علم ہوتا چلا جارہا ہے کہ قادری صاحب،بھائی صاحب ،خان صاحب یا پھر چوہدری صاحب کی سپورٹ کرنے یا انہیں ووٹ دینے سے تو جبر کی تلوارتھامے پھر سے وہی صاحب ہمارے سر ہونگے تب جاکے اس غیر ملکی شہریت کے ساتھ ٹریننگ یا فتہ سیاسی کھلاڑیوں کے غبارے سے ہوا نکتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے۔
اس طرح غبارے میں ہوا بھرنا پھر نکل جانایہ ان کے کاروبار کے اتار چرھائو ہیں ،مگرہم سیدھے سادھے لوگ اسے سیاست سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ہمارے سیاستدان سیاست کے نام پر کالے دھندے سے بھی گھٹیا کوئی ترین فعل کچھ یوں سرانجام دے رہے ہوتے ہیں کہ کالے دھندے کرنے والوں میںسب سے برا دھندا ہم جسم فروشی کا سمجھتے ہیںمگر اس میں صرف ایک جسم بکتا ہے جبکہ یہ لوگوں کے جذبات بھڑکانے والے اُن کی ذات کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات بھی بیچ رہے ہوتے ہیںاس طرح ایک کے بعد دوسرا آتا ہے اپنا کام سرانجام دیتا ہے اور چلا جاتا ہے مگر موجودہ صدرصاحب کے بار باراگلی حکومت بھی ہماری ہی ہوگی کا نعرہ لگانے کے پیچھے اصلی ہاتھ ،اصلی حقیقت اور طاقت یہی تھی جس سے وہ دوبارہ مسلط ہونا چاہتے ہیں۔
اگر لانگ مارچ کامیاب ہوتا ہے تو یقیناً صدر صاحب بھی دوبارہ کامیاب ہوسکتے ہیں ورنہ نہیں اگر ایسا نہیں تو پھریہ ایسی قانون سازی کیوں نہیں کرتے جس سے غیر ملکی شہرت یا ملک سے باہر مقیم لوگوں پر مقامی عوامی سیاسی وسماجی معاملات میں دخل اندازی پر مکمل پاپندی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے معاملات پر میڈیا میں آ کر بول بھی نہ سکیں۔
Mohammad Amjad Khan
تحریر : محمد امجد خاں Mobe:0343 6999818 Email:Pardahchaak@gmail.com