امریکہ کی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایران کی حکومت کو “آمر” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ایرانی عوام کی آزادی حاصل کرنے کی خواہش کو درست سمجھتا ہے۔بدھ کو ‘وائس آف امریکہ’ کی ‘فارسی سروس’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی وزیرِ خارجہ نے ایرانی عوام کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ایرانی حکومت کو آمریت سمجھتی ہیں اور ان کا ملک ایرانی عوام کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ ان کے اندر پنپنے والی آزادی کی خواہش کا قانونی جواز موجود ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ ایرانی عوام سے رابطے بڑھانے کے لیے سال کے آخر تک انٹرنیٹ پر تہران کے لیے ایک “ورچوئل سفارت خانہ” کھولنے کی خواہش رکھتا ہے۔ہیلری کلنٹن نے کہا کہ ان کا ملک ایرانی عوام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا خواہاں ہے اور ایرانی طالبِ علموں کی “امریکہ آنے اور تعلیم حاصل کرنے” کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن انتظامیہ ایرانیوں کو ایسے آلات فراہم کرنا چاہتی ہے جن کے ذریعے وہ ایرانی حکومت کی جانب سے آن لائن مواصلات میں حائل کی جانے والی رکاوٹوں پر قابو پاسکیں۔’وی او اے فارسی سروس’ کے مقبول پروگرام ‘پرازیت’ میں گفتگو کرتے ہوئے امریکہ وزیرِ خارجہ نے واضح کیا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے باعث عائد کی گئی پابندیوں سے تہران حکومت پر دبائو ڈالنا اور اس کے رویے کو تبدیل کرنا مقصود ہے۔ہیلری کلنٹن نے کہا کہ یہ “کلی طور پر واضح” ہوچکا ہے کہ ایرانی حکومت جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال میں ایران پر عائد کردہ پابندیاں ضروری ہوجاتی ہیں لیکن ان کے بقول پابندیوں کا مقصد ایرانی عوام کو مشکلات میں مبتلا کرنا نہیں ہے۔ہلیری کلنٹن نے کہا کہ عالمی برادری بھی جوہری پروگرام کے بارے میں ایران کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں کر رہی ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ نے دعوی کیا کہ ایک ایرانی نژاد امریکی شہری کی جانب سے واشنگٹن میں تعینات سعودی عرب کے سفیر کے قتل کی مبینہ سازش کے امریکہ کے پاس “انتہائی قوی شواہد” موجود ہیں۔ہیلری کلنٹن نے سعودی سفیر کے قتل کے منصوبے کو “حیران کن” قرا ر دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ایران سازش کے شریک ملزم جو ایران کی القدس فوج کا ایک عہدیدار بتایا جاتا ہے – کو امریکہ کے حوالے کردے گا۔امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘پاسدارانِ انقلاب’ کے نام سے معروف ایرانی فوج بعض کاروباری منصوبوں میں خود کو ملوث کر رہی ہے جسے انہوں نے ایک “حوصلہ شکن رجحان” قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ “اس سے ایران میں فوجی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوسکتا ہے”۔