ایران (اصل میڈیا ڈیسک) تجارت اور فوجی معاملات میں طویل مدتی تعاون کے سلسلے میں ایران اور چین ایک اہم معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ مجوزہ معاہدہ امریکا کے لیے شکست سے کم نہ ہوگا اور خطے میں یہ نئی پیش رفت مشرقی طاقتوں کو دوبارہ متحد کر سکتی ہے۔
چین کی جانب سے ایران میں آئندہ 25 سال کے دوران 400 ارب امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی خبریں ایرانی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ چین کی یہ بھاری سرمایہ کاری سڑکوں کی تعمیر، ریلوے ٹریک، بندرگاہوں اور دیگر بنیادوں ڈھانچوں کے منصوبوں سمیت سیاحت اور تیل و گیس کی صنعت میں استعمال کی جائے گی۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی تعاون کا یہ معاہدہ دستخط کے لیے تیار ہے۔
اس کے علاوہ چین کی جانب سے ایرانی بینکوں اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں چین کو ایران سستے داموں پر تیل فروخت کرے گا۔
18 صفحات پر مشتمل مذکورہ تجارتی معاہدے کے مسودے میں قریبی فوجی تعاون بھی شامل ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس معاہدے کے تحت مشترکہ تربیتی مشقوں کےساتھ ساتھ ہتھیاروں کی تحقیق اور پیداوار کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اور، دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں معلومات کا تبادلہ بھی کریں گی۔
جرمنی کی ژینا یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اشٹیفان لوکاس سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اشٹیفان کے بقول، ’’ایران کو جوہری معاہدے کی ناکامی کے بعد تیل، گیس اور اسٹیل کے لیے نئے خریدار اور منڈیوں کی تلاش ہے اور اس معاملے میں چین یقینی طور پر ایک اچھی پیشکش کر رہا ہے۔ چین کو ملک میں توانائی کی بے پناہ ضرورت ہے اور وہ امریکی پالیسیوں کے برخلاف مؤقف اختیار کر رہا ہے۔‘‘
لوکاس کے مطابق امریکا اور اسرائیل کے حملوں کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہنے کے مقصد سے ایران نے چین اور روس کے زیر سربراہی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا رکن بننے کے لیے پہلے ہی اقدامات کر رکھے ہیں۔ ادھر بیجنگ تہران کو ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھتا ہے جہاں 80 ملین سے زائد صارفین موجود ہیں، جن میں زیادہ تر چالیس برس سے کم عمر کے متحرک صارفین ہیں۔
اس کے علاوہ چین کے لیے ایران کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔ چین کے بیلٹ روڈ منصوبے (بی آر آئی) میں ایران ایک اہم ترین شراکت دار خیال کیا جاتا ہے۔ ایران میں اس وقت چین کی تعمیراتی اور ٹرانسپورٹ کمپنیاں سرگرم ہیں، جو کہ پاسداران انقلاب کی فوج اور ان کی ذیلی کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
ایران اپنی خارجہ پالیسی کے معاملے میں چین کے ساتھ اس مجوزہ معاہدے سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں لوکاس نے کہا کہ چین سیاسی، اور اقتصادی معاملات میں ایران کو امریکا کے ساتھ براہ راست جنگ نہ ہونے تک یقیناﹰ مدد فراہم کرے گا۔ لوکاس کے بقول، ایران کے لیے سکیورٹی کونسل میں روس اور چین کی حمایت کافی معنی خیز ہے۔ کیونکہ، اس کا مطلب ایک مستحکم ایران ہے، جو خطے میں کبھی خود اعتماد اور کبھی اشتعال انگیز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ لوکاس کے مطابق تہران کو ملک کی خستہ مالی صورت حال کی وجہ سے لبنان، عراق، شام، غزہ پٹی اور یمن میں مداخلت کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
اس کے علاوہ تہران کی خارجہ پالیسی پر آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ لوکاس سمجھتے ہیں، ’’عین ممکن ہے کہ آئندہ ایرانی صدر ایک سخت گیر حلقے سے وابستہ ہوں اور حسن روحانی کے مقابلے میں اس کی خارجہ پالیسی زیادہ سخت اور بنیاد پرست بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
دوسری جانب خطے میں روسی اور چینی دستوں کی موجودگی ’مشرقی اتحاد ‘ کو مضبوط کرے گی اور اس کے دیگر علاقائی فریقین اور ان کے اتحادیوں پر بھی سنگین اثرات مرتب ہونگے۔ لوکاس کے بقول، ’’سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو کہ ’مغرب‘ کے اتحادی ہیں، اس پیش رفت کو کبھی نظر انداز نہیں کریں گے۔ ان کی توجہ بھی صرف مغرب پر موکوز نہیں رہے گی۔ خلیجی ریاستوں میں پہلی چینی ہتھیاروں کی ڈیل اس بات کی نشاندہی ہے۔‘‘
چین اور ایران کے درمیان اس ممکنہ معاہدے کے تہران اور واشنگٹن کے مابین تعلقات پر بھی غیر معمولی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے ایک تجزیہ کے مطابق، ’’اگر ایران اور چین کے درمیان شراکت داری کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگیا تو یہ پیش رفت بیجنگ اور واشنگٹن کے بگڑتے تعلقات میں ایک اور تنازعے کا مرکز بن سکتی ہے۔‘‘
امریکی اخبار کے مطابق چین امریکا کے بحران زدہ داخلی حالات کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ’’ایسے وقت میں جب امریکا کساد بازاری اور کورونا وائرس سے متاثر ہے، بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہے، بیجنگ واشنگٹن کی کمزوری کو محسوس کر رہا ہے۔‘‘
نیو یارک ٹائمز کے مطابق تہران اور بیجنگ کی مضبوط شراکت داری کے اس معاہدے کے مسودے سے بظاہر یوں لگتا ہے، ’’بیشتر ممالک کے برعکس، چین کا خیال ہے کہ وہ امریکا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ تجارتی جنگ میں امریکی پابندیوں کا ڈٹ کر سامنا کر سکتا ہے۔‘‘