سلامتی کونسل کی ایران پر پابندیاں عائد کرنے والی کمیٹی سے بات کرتے ہوئے، فرانسیسی سفارتکار مارٹن برائنز کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری مقاصد سے متعلق سوالات مسلسل تشویش کا باعث ہیں۔ مارٹن کے بقول، اِس وقت بین الاقوامی برادری کی توجہ کسی اور جانب یعنی شام اور لیبیا پر مبذول ہے ، اورہو سکتا ہے کہ ایران اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ اس نے سینٹری فیوجز کی تعداد اور اشتعال انگیز بیانات میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن ہم اِس سے گمراہ نہیں ہونگے۔ فرانسیسی ایلچی کا کہنا تھا کہ ایران کے عسکری نوعیت کے جوہری مقاصد مسلسل بڑھتے ہوئے خطرے کا باعث ہیں۔انھوں نے کہا کہ تہران نے بیلسٹک میزائل کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک مصنوعی سیارہ خلا میں چھوڑا ہے جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ممانعت کی گئی ہے۔ یہ بین الاقوامی مطالبات کی ایک اور خلاف ورزی ہے۔ گزشتہ نو سال میں ایران، اقوام متحدہ کیتحت قائم جوہری توانائی کے عالمی ادارے کو یہ یقین دہانیاں فراہم کرنیمیں ناکام رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام خالصتا غیر فوجی مقاصد کے لئے ہے ۔ اقوام متحدہ کے لئے امریکی سفیر سوزن رائس کا کہنا تھا کہ ادارے کی گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی رپورٹ میں، ایران کے مسلسل تعاون نہ کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سوزن کے بقول، ایران اپنے جوہری پروگرام سے متعلق امور کے بارے میں سوالات کو رد کرتا چلا آرہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نے اطلاع دی ہے کہ ایران کونسل اور عالمی ادارے کے بورڈ آف گورنرز سے رو گردانی کرتے ہوئے، افزودگی اور بھاری پانی سے متعلق سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران ابھی بھی اپنے جوہری پرگرام کی عسکری جہت سے متعلق حتمی معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔ سوزن رائس نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اقوام متحدہ اپنی پوری توجہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ روس اور چین سمیت دیگر مغربی سفارتکار وں نے ایران پر دبا بڑھانے اور بات چیت پر مبنی ٹریک ٹو سٹریٹجی جاری رکھی ہوئی ہے۔ جرمنی کے سفارتکار پیٹر وٹِگ کا کہنا تھا کہ اِس کو جاری رکھنے کا مقصد ایران کو مذاکرات پر آمادہ کرنا ہے۔ پیٹرکے الفاظ میں: ہم بات چیت کی حکمت ِعملی کے تحت ، ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اس سے سیر حاصل مذاکرات جاری رکھنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔ یہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ تاہم، جب تک ایران تعاون کرنے کی سطح تک نہیں آتا ، ہمارے پاس دبا ڈالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسرے وفود، جن میں روس، چین اور بھارت شامل ہیں، باہمی اعتماد بڑھانیکے لئے بات چیت پر زور دیتے ہیں۔ تاہم وہ ایران کو بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کی نوعیت کے حوالے سے تمام سوالات کا جواب دے۔