ایران : (جیو ڈیسک) مبصرین کی رائے میں ایسے کسی بھی حملے کی صورت میں دہشت گرد گروہ ایران کے تعاون سے دنیا بھر میں اسرائیلی تنصیبات، امریکی مفادات اور امریکہ کے اتحادی ممالک کو نشانہ بنائیں گے۔ ایران اورعالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام پرمذاکرات کا معطل سلسلہ رواں ہفتے دوبارہ شروع ہورہا ہے۔ ان مذاکرات کا نتیجہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا اسرائیل اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کرتا ہے یا نہیں۔
ایران کی جوہری سرگرمیوں پر مغربی ممالک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔مذاکرات کے آغاز سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اب سفارت کاری کے لیے “لامحدود” وقت نہیں بچا ہے اور یہ کہ ان کے لیے “تمام راستے کھلے ہیں”۔ اسرائیل پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ایران کے جوہری پروگرام پر خدشات میں اضافہ ہورہا ہے، وہ خاموش تماشائی نہیں بنا رہ سکتا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے گزشتہ دنوں چین نے بھی خبردار کیا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ اسرائیلی حملہ ایک ایسی محاذ آرائی کو جنم دے گا جس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
مبصرین اس خدشے کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ تہران حکومت اور اس کے اتحادی ایران پر کسی بھی فوجی حملے کے جواب میں اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کردیں گے۔ مبصرین کی رائے میں ایسے کسی بھی حملے کی صورت میں دہشت گرد گروہ ایران کے تعاون سے دنیا بھر میں اسرائیلی تنصیبات، امریکی مفادات اور امریکہ کے اتحادی ممالک کو نشانہ بنائیں گے۔
لیکن ماہرین کے لیے اصل دردِ سر یہ خدشہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کی یہ باہمی محاذ آرائی پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے کر ناقابلِ تصور نتائج پیدا کرسکتی ہے جن سے نبٹنا شاید کسی کے بس میں نہ ہو۔