اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت پیر کے روز فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان پر پیش رفت کا جائزہ لینے کیلیے منعقدہ اجلاس میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی جانب سے وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیرہی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو نامکمل اور غیر تسلی بخش جواب پر مبنی رپورٹ بھجوانے کا انکشاف ہوا ہے۔
اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کو غیر تسلی بخش جوابات بھجوانے کی ذمے داری نیکٹا،ایف ایم یو اور ایف آئی اے ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔مشیر خزانہ نے اداروں کی اس بلیم گیم پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس اہم اور حساس نوعیت کے معاملہ پر آئندہ کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ہدایت کی کہ وہ ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے اہداف کے حصول کیلیے مسلسل کام کو یقینی بنائیں اور اسے اعلیٰ ترین ترجیحات میں رکھا جائے تاکہ ہدف سے بڑھ کر کام کو یقینی بنایا جا سکے۔ سیکریٹری خزانہ نے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کو اجلاس کی سنجیدہ نوعیت، سنجیدہ چیلنجوں اور اعلیٰ ترجیحات کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔
سیکریٹری خزانہ یونس ڈھاگا نے اجلاس کو ایف اے ٹی ایف سفارشات پر بریفنگ دی۔ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف سفارشات پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔ مشیر خزانہ نے ڈی جی فنانشل مانیٹرنگ یونٹ منصور صدیقی جب ایف اے ٹی ایف کو نامکمل رپورٹ بھجوانے کے بارے میں وضاحت طلب کی تو انھوں نے بتایا کہ انھوں نے متعلقہ اداروں کے ذمے داران کے ساتھ وٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے خط و کتابت کرنے کے بعد یہ رپورٹ بھجوائی ہے۔
اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ جو رپورٹ بھجوائی گئی ہے اس کا وزارت خزانہ میں نہ تو فائل ورک ہوا اور نہ ہی اس رپورٹ کی کوئی منظوری لی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں ایف اے ٹی ایف ایکش پلان کے نکات پر عملدرآمد کے بارے میں غیر تسلی بخش جواب دیے گئے ہیں اور زیادہ تر نکاتکے جوابات میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ مشیر خزانہ نے اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاق و صوبوں کے درمیان رابطوں کو بڑھانے اور منی لانڈرنگ و ٹیررازم فنانسنگ سے نمٹنے کی صلاحیتیں بڑھائی جائیں گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے جو حال ہی میں اہم فیصلے کیے ہیں اور اسی طرح کالعدم تنظیموں پر پابندی اور ان کے اثاثہ جات و بینک اکاونٹس منجمد کرنے اور مدارس پر سرکاری کنٹرول کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں اس سے عالمی سطح پر اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور امریکا نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے سب سے مخالف ممبر بھارت کی جانب سے بھی دباؤ کم ہوا ہے اس لیے توقع کی جارہی ہے کہ 16 مئی سے ایف اے ٹی ایف کے ساتھ شروع ہونے والے فیس ٹو فیس مذاکرات میں پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا جائیگا تاہم پاکستان کا نام گرے لسٹ میں برقرار رہنے کا امکان ہے۔