ایف بی آر نے ایک دن میں 35ارب اکٹھے کرلئے..قابلِ تحسین اقدام ہے

F.B.R

F.B.R

یقینا ہماراملک سابقہ اور موجودہ حکمرانوںکی نااہلی اور اِن کی ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے آج جن بحرانوں میں پھنسا ہواہے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے اِن موجودہ بحرانوں اور ملک میں آئندہ آنے والی کسی بھی قسم کی مشکلات اور پریشانیوں سے بھی نجات حاصل نہ کرسکیں مگر اِس کے لئے لازمی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنی قوم میں ٹیکس کلچرکو متعارف کراناہوگا ایسا کئے بغیر ہم اپنے ملک کو بحرانوں کی دلدل سے نہیں نکال سکتے ہیں جس کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر عوام میں ٹیکس کی اہمیت اور اِس کی افادیت کو اجاگر کیا جائے جس کے لئے قوم کے ہر باشعور شخص کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا اور قوم کو ٹیکس کی ادائیگی کے ظاہر و باطن فوائدسے بھی آگاہی حاصل کرنااور کرانا لازمی ہوگی۔

جبکہ آج پہلی بار یہ امر یقینی طور پر ہماری قوم کے لئے اِنتہائی حوصلہ افزا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر ممتاز حیدر رضوی کے مطابق ملک میںٹیکس اکٹھاکرنے والے اداروں نے مالی سال کے آخری دن یعنی 30جون 2012ء کو اپنی حکمت عملی اور دانش کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے 35ارب 9کروڑ 67لاکھ روپے اکٹھے کئے ہیں اِن کا کہنا ہے کہ جن کی وجہ سے ایف بی آر میں مالی سال میں19ارب 5کروڑ روپے اکٹھے ہوئے جب کہ ہدف 19ارب 52کروڑ رکھا گی اتھا اِنہوں نے بتایا کہ ہم نے 19کھرب سے زیادہ اکٹھے کئے ہیں اِن میں 21ارب روپے سندھ ریونیو بورڈ سے سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کئے گئے ہیں۔

Tax culture

Tax culture

جبکہ اِس موقع پر اِن کا فخریہ انداز سے یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان اور توانائی بحران کو مدِنظررکھا جائے تو ایف بی آر کی یہ کوشش یقینی طور پر بہت کامیاب رہی ہے اور اِس کے علاوہ اِن کا مزیدیہ بھی کہنا تھا ہمیں پوری اُمیدہے کہ ہم آئندہ 10سے 15ارب روپے مزید اکٹھے کرسکتے ہیں جس سے ایف بی آر کو مجموعی طور پر19کھرب 15ارب سے 19کھرب 20ارب کی وصولی بھی ہوسکتی ہے اوراُنہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 30جون 2012ء ایف بی آر کی تاریخ میں تاریخی دن ہے کہ ایک ہی دن میں 35ارب سے زائد وصولیاں ہوئیںاِس موقع پر ہمیں یہ شعریاد آگیاکہ:
مدت کے بعد آئی ہے موجِ نسیمِ گُل مدّت کے بعددوراندھیراہواتو ہے
صدشکر میرے باغ میں پُھوتی ہیں کونپلیں صد شکر گُلستاں میں سویرا ہواتوہے
اِس موقع پراَ ب ہم یہ کہنے میں فخر محسوس کررہے ہیں کہ ہم اگر اپنے ملک اور قوم کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے خاطر متحدہ ہوجائیں اور ٹیکس چوری کے رجحان کو خیر باد کہہ دیںاور ٹیکس کی ایمانداری سے ادائیگی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بقول شاعر:
ہم ہر اک بُت کو توڑ سکتے ہیں دل محبت سے جوڑ سکتے ہیں
اپنے جذبوں سے عزم وہمت سے رُخ حوادث کا موڑ سکتے ہیں
ایسے میں اگر ہم گزشتہ سال کا ایک جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگاکہ پچھلے مالی سال میں ایف بی آر نے 18کھرب 84ارب روپے اکٹھے کئے ہیں اِن میں 21ارب سندھ ریونیو بورڈ کی طرف سے آئے تھے۔

ا گرچہ ایک خبر کے مطابق یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ چیئرمین ایف بی آر نے خواہش کردہ ہدف19کھرب 52ارب کے مقابلے میں کم ریونیو پر مستعفی ہونے کا اعلان بھی کررکھاتھایوں اِس سال ایف بی آر کی تاریخ میں ایک ہی دن میں 35ارب 9کروڑ 67لاکھ روپے کا اکٹھا کیا جانایقینا اِس بات کا غماز ہے کہ قوم میں کچھ نہیں تو تھوڑابہت ٹیکس کی ادائیگی کا رجحان ضرورپروان چڑھا ہے اور اِسے یہ احساس بھی ہونے لگاہے کہ اگر ملک کو توانائی کی شکل میں بجلی اوربحرانوں سے نکالناہے تو ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوگی ۔

مگر پھر بھی اِس موقع پر ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ضروری ہے کہ قوم میں پیداہونے والے ٹیکس کی ادائیگی کے رجحان کو مزید پروان چڑھایاجائے تاکہ آئندہ سالوں میں ایف بی آر کو سو فیصد ٹیکس کی وصولیاں ہوں اور ہم اِ س سے اپنے ملک کو کئی بحرانوں اور مشکلات سے بچاسکیں یکدم ایسے ہی جیسے دنیاکے جن ممالک میں سوفیصد ٹیکس کی ادائیگی کا رجحان موجود ہے اُن ممالک میں کبھی کو ئی ایسا ویساکوئی بحران یا مشکلا ت پیدانہیں ہوپاتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ ممالک اور اِن کے عوام بحرانوں اور مشکلات کا شکار ہوکراپنی معیشت اور اقتصادیات کا ستیاناس کردیں جیساکہ ہم نے اپنے حصے کاٹیکس چوری کرکے آج اپنے ملک کا کررکھاہے۔

Private power comapny

Private power comapny

اِسی کے ساتھ ہی ایک خبر حکمرانوں ، سیاستدانوں ، عسکری قیادت اور عوام کو پریشان کردینے کے لئے یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ملکی ضروریات کے مطابق بجلی پیداکرنے والی نجی پاور کمپنیز نے حکومت کو عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ اِن نجی پاورکمپنیز نے 61ارب روپیہ کے واجبات کی ادائیگی تک اپنی 100فیصدپیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی پیداوارسے انکارکرتے ہوئے ایک کڑی دھمکی یہ بھی دے دی ہے کہ یہ 61ارب کی حکومت سے وصولی تک سوفیصد بجلی پیدانہیں کریں گیں ۔

جبکہ اِس عندیہ اور دھمکی میں شامل 7نجی پاورکمپنیزکا اپنا اٹل موقف یہ ہے کہ وہ پہلے ہی واجبات کی عدم ادائیگی پر بینکوں اور مالیاتی اداروں کی نادہندہ ہیںاِن پاورکمپنیزکا یہ بھی موقف ہے کہ حکومت جب اِنہیں 100فیصد پیداواری صلاحیت پر مجبورکررہی ہے تو اِسے یہ بھی چاہئے کہ یہ پہلے ہمیں 61ارب روپیہ کی ادائیگی کو یقینی بنائے تو پھر دیکھے کہ ہم حکومت کو 100فیصد پیداوارکیسے نہیں دیتے ہیں۔

اَب اِس موقع پر یہ بات تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے یہاں توانائی کی شکل میں بجلی کا کوئی بحران نہیں ہے اور جو ہے وہ بھی مصنوعی ہے ایک طرف حکمران نجی پاور کمپنیز کی ادائیگیاں روکے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اِن پربے جایہ دباؤبھی ڈال رہے ہیں کہ یہ اِنہیں ملکی ضروریات کو پورکرنے کے لئے کسی بھی طرح سے سوفیصد بجلی کی پیداوار بھی دیںایسے میں ہمارا اپنے حکمران کو یہ مشورہ ہے کہ اَب جب کہ ٹیکس کی وصولیابی کی مد میں ایف بی آر نے اپنی مثبت کارکردگی کا مظاہر ہ کر نابھ شروع کردیاہے اور اِمسال ایف بی آر نے ایک ہی دن میں تاریخی کامیابی حاصل کرلی ہے اور اِسی طرح اُمید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ بھی ایف بی آر سے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئیں گے۔

Load Shedding

Load Shedding

تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ٹیکس کی وصولیابی کی مدد میں جمع کی جانے والی قومی دولت کو اپنے اللّے تللّے میں اُڑانے کے بجائے اِس قومی دولت کو اِن نجی پاور کمپنیز کو دے آج جنہیں اِس کی اشدضرورت ہے تاکہ یہ اِس رقم کی وصولی سے بینکوں کو اپنی ادائیگیاں کرسکیں اور ملک اور قوم کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے لئے اپنی 100فیصد بجلی کی پیداوار یقینی بناسکیں۔تحریر: محمداعظم عظیم اعظم