سپریم کورٹ (جیوڈیسک) این آئی سی ایل کرپشن کیس کے ملزم محسن حبیب وڑائچ اور این آئی سی ایل بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دو ارکان کے پاسپورٹ منسوخ کر دیئے گئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ خدا کے لیے اس کیس میں دلچسپی لیں جب ہم کچھ کہتے ہیں تو کہا جاتا ہے عدالت مداخلت کر رہی ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت کی۔ ایف آئی اے نے بیالیس کروڑ روپے کی ریکوری سے متعلق پیش رفت پر رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محسن حبیب وڑائچ کا پاسپورٹ کینسل کر کے انہیں بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔
محسن حبیب وڑائچ کی واپسی کے لیے انٹرپول سے رابطہ بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق این آئی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دو ارکان کے پاسپورٹ بھی کینسل کر دیے گئے ہیں اور ڈی جی ایف آئی اے نے فیلڈ ڈائریکٹر کو ایک ہفتے میں کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کے استفسار پر ڈائریکٹر لیگل اعظم خان نے کہا کہ لاہور ایف آئی اے کا ڈائریکٹر وقار حیدر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وقار حیدر تو وہی شخص ہے جس نے این آئی سی ایل کیس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی اور ظفر قریشی کو ایف آئی اے لاہور میں عمارت میں داخل ہونے سے روکا۔
وقار حیدر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا سامنا بھی کر رہا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا کے لیے اس کیس میں دلچسپی لیں جب ہم کچھ کہتے ہیں تو کہا جاتا ہے عدالت مداخلت کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے فلاں ریمارکس دے دیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے کیا آپ حکام کو جا کر نہیں بتاتے کہ وقار حیدر کا کنڈکٹ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سیکریٹری تجارت کو آج ہی طلب کر لیا اور ان کے پیش ہونے تک سماعت ملتوی کر دی۔