اسلام آباد (جیوڈیسک)این آر او پرعملدرآمد کیس کی اہم سماعت آج ہو رہی ہے۔ عدالت نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کوسوئس عدالت کوخط لکھنے کی جو مہلت دی تھی وہ آج ختم ہو رہی ہے۔ این آر او عملدرآمدکیس ایک مرتبہ پھر اہم اور دلچسپ موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔
عدالت نے پچھلی پیشی میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو سوئس عدالت میں خط لکھنے کیلئے حتمی مہلت دی تھی جو آج ختم ہوگئی ہے۔اسی دوران پیپلز پارٹی کے دھواں دھار سینٹر فیصل رضا عابدی نے میڈیا کے سامنے چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ جس کے بعد سیاسی ماحول گرم ہوگیا ہے۔
اسی پس منظر میں آج کیس کی سماعت ہورہی ہے۔ پچھلی سماعت میں بعض ریمارکس بہت مثبت انداز میں لیئے گئے تھے جس میں جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس سب کی توجہ کا مرکز بنے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ اس کیس کی وجہ سے پاکستان بحرانوں کا شکار ہے۔ عدالت بھی نہیں چاہتی کہ وہ ہر روز کسی وزیر اعظم کو گھر بھیج دے۔
صدر آصف زرداری پورے ملک کے صدر ہیں اور ان کیلئے قابل احترام ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ صدر کو استثنی ہے تو وہ غیر ملکی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوں۔ لیکن یہ پچھلی سماعت کے ریمارکس تھے۔
آج کا دن کتنا اہم ہے یہ تمام مبصرین اور سیاسی رہنما بھی جانتے ہیں۔ کیا آج وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو مہلت ملے گی یا وہ بھی گھر جائیں گے۔ یہ ہے اہم سوال۔ جو سماعت ختم ہونے تک بار بار ذہنوں میں اٹھے گا۔۔اس کے علاوہ یہ سوالات بھی ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں کہ کیا خط لکھنے سے انکار کی صورت میں نئے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کا کیس چلے گا ؟ کیا نا کہنے پر سابق وزیراعظم گیلانی کو جو سزا دی گئی تھی وہ وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو بھی دی جاسکتی ہے۔
کیا نظر ثانی کیلئے پٹیشن دائر ہوئی تو اسے سننے کا وقت دیا جائے گا؟کیا وزیراعظم کو خط لکھنے کیلئے مزید مہلت بھی دی جاسکتی ہے؟ کیا اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کے ریمارکس کے مطابق اس معاملے کا کوئی درمیانی راستہ نکال پائیں گے؟ این آر او عملدرآمد کیس ایک اہم موڑ پر داخل ہوگیا ہے۔
یوسف رضا گیلانی کو اسی کیس کے سلسلے میں وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پارلمینٹ کا بنایا گیا قانون کالعدم ہوا اور اب نئے وزیراعظم پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ آٹھ اگست کے روز وزیراعظم خط لکھنے سے متعلق اپنا موقف سپریم کورٹ کو پیش کریں گے۔ حکومت ابھی تک اس بات پر قائم ہے کہ جب تک آصف زرداری صدر ہیں انہیں استثنا حاصل ہے جس کے نتیجہ میں لگتا ہے کہ وزیراعظم بھی یہی موقف دیں گے۔ جس کے بعد جنوری میں این آر او کیس میں دیئے گئے کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔
این آر او کیس کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں جنوری میں سپریم کورٹ نے چھ آپشن رکھے تھے جن پر عدالت عمل کرسکتی ہے۔ پہلا عدالت وزیراعظم پر ہمیشہ کیلئے پارلیمنٹ کار رکن منتخب ہونے پر پابندی لگا دے ۔ دوسرا وزیراعظم ، وزیر قانون اور سیکریٹری قانون کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے ۔ تیسرا عدالت فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کمیشن قائم کرے ۔چوتھا اگرکسی کو استثنی حاصل ہے تو عدالت سے مانگاجائے ، عدالت اسے سننے کو تیار ہے۔پانچواں چیئرمین نیب کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی کی جائے۔ چھٹاعدالت تحمل کا مظاہرہ کرے اور فیصلہ عوام یا ان کے نمائندوں کوکرنے دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے چھ ماہ میں آپشنز نمبر ایک ، دو اور چھ استعما ل کر لیئے جس کے بعد تین آپشنز باقی بچے ہیں ۔ پہلا عدالتی فیصلے پر عملدرآمدکیلئے کمیشن قائم کر دیا جائے ۔ دوسرا صدر کے استثنی سے متعلق عدالت سے رجوع کرلیا جائے اور تیسرا چیئرمین نیب کو ہٹانے کی کارروائی کی جائے ۔آتھ اگست کو پتا چلے گا کہ عدالت کس آپشن کو استعمال کرتی ہے۔