آج پاکستان کی معیشت کس سطح پر پہنچ چکی ہے اِس کا اندازہ اِ س بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں،پاکستانی کرنسی ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی قدر کھو رہی ہے،فیکٹریوں،ملوں اور کارخانوں کے پاس آرڈرز ہیں لیکن پروڈکشن دینے کیلئے بجلی اور گیس نہیں ہے،جس کی وجہ سے ایکسپورٹس نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے،سابقہ آمرانہ دور میں ڈالر 60روپے کا تھا مگر آج90روپے تک پہنچ چکاہے،پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں،ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،مہنگائی بے لگام گھوڑے کی طرح غریب عوام کو روند رہی ہے،گیس نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو صارفین مٹی کے تیل اور لکڑی سے اپنے چولہے جلا رہے ہیں،اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے،جبکہ حکومت نئے نوٹ چھاپ کر ایک ریکارڈ قائم کر رہی ہے، روزانہ اربوں اور کھربوں کرپشن کی داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل،واپڈااوریلوے جیساوطن عزیز کا ہر ادارہ کھوکھلا،مقروض اور دیوالیہ ہوچکا ہے،ملک کے اندرونی حالات، بدامنی، دہشت گردی اور بیڈ گورنس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے،ایک ایسے ملک میں جہاں سرمایہ دار کیلئے گیس، بجلی اور دیگر سہولیات میسر نہ ہوں،جہاں خام مال کی یہ حالت ہو کہ ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو اور جہاں سرمایہ غیر محفوظ ہو،وہاں کون سرمایہ کاری کرے گا،حال یہ ہے کہ ہر گزرتا لمحہ پاکستانی معیشت کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے لیکن حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے عیش و عشرت اور اللوں تللوں میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ عقل حیران اور ذہن ماف ہوجاتا ہے یہ دیکھ کر کہ اِس قدر سنگین معاشی بحران کے باوجود بھی ایوان صدر کے باورچی خانے کی ازسرنوتعمیر اور آرائش کیلئے 26کروڑ 16لاکھ 85 ہزار روپے کا پی سی ون پلاننگ کمیشن کومنظوری کیلئے پیش کیا گیا ہے،اطلاعات کے مطابق کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ایوان صدر کے باورچی خانے میں متعلقہ آلات کی تنصیب کیلئے نوکروڑ اٹھاون لاکھ پچھتر ہزار روپے اور موجودہ اسٹرکچر کو منہدم کرکے نئے ڈیزائن کے آرائش،پلمبرنگ اور فائر فائیٹنگ سمیت دیگر آلات کی تنصیب کیلئے دو کروڑ اسی لاکھ بیس ہزار روپے تجویز کئے ہیں،اسی طرح الیکٹرک ورک،ڈیپارٹمنٹل چارجز،پروجیکٹ ڈائریکٹرکی فیس اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی مد میں تیرہ کروڑ ستتر لاکھ روپے کی منظوری طلب کی گئی ہے،یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پروجیکٹ کا پی سی ون ڈائریکٹر مینٹیننس ایوان صدر،سی ڈی اے اور پریزیڈنٹ سیکرٹیریٹ کی مشاورت سے رواں سال 27جون کو منظور کیا گیا تھا،جسے پلاننگ کمیشن پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام 2011کے تحت فنانس کرے گا،خیال رہے کہ ایوان صدر میں نئے باورچی خانے کی تعمیر کے بعد بیک وقت چھ سو وی وی آئی پی شخصیات کے طعام کا انتظام ممکن ہو گا۔ ایک طرف حال یہ ہے کہ غریب عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں،لوگ فاقوں سے مررہے ہیں مگردوسری جانب ایوان صدر کے باورچی خانے کی تعمیر نو اور بیک وقت چھ سو غریب اور ضرورت مند افراد کے طعام کے انتظامات ہورہے،قومی دولت اور ملکی وسائل کی اس سے بڑی بے قدری اور کیا ہوگی،یہ ہماری بد قسمتی ہی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی شخصیت ہمیشہ سے تضادات کا مجموعہ رہی ہے،اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے قوم کو بہت سے دلکش سیاسی نعرے دئیے،لیکن کبھی اِس سچائی کا اظہار نہیں کیا کہ جب تک ہم اپنی معیشت کو نہیں سنواریں گے،اس وقت تک نہ تو خود عیش و آرام سے رہیں گے اور نہ ہی وہ سہولیات استعمال کریں گے جس سے ملک کے غریب عوام محروم ہیں،اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے والے تمام حکمرانوں کا تعلق اس بالائی طبقے سے رہاجو نعروں کے ذریعے قومی جذبات کو ہوا دیتے ہیں،سنہرے مستقبل کے خواب دکھاتے ہیں اور وعدوں کے جھوٹے لولی پاپ سے قوم کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں،مگر جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو اپنے تمام دعوئے اور وعدے بھول جاتے ہیں، زیادہ پرانی بات نہیں صدر محترم جب پہلی مرتبہ ایوان صدر میں داخل ہوئے تھے تو قومی میڈیا میں اِس خبر کا بہت چرچا تھا کہ صدر صاحب نے ایوان صدر کی تمام امپورٹیڈ کراکری پیک کرنے اور لوکل کراکری استعمال کرنے کے احکامات جاری کیے،ابتدامیں ان کے نجی دوروں کے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرنے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنی،یاد رہے کہ یہ وہی ہمارے صدر محترم ہیں جنھوں نے اپنے ابتدائی ایام میں کہا تھا کہ پاکستان کوئی لمیٹیڈ کمپنی نہیں جو دیوالیہ ہوجائے،انہوں نے بڑے زور و شور کے ساتھ ملکی معیشت سنوارنے کے دعوئے کیے گئے،ایک کے بعد ایک معاشی ماہرین کی ٹیم منتخب کی،لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار میں ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی۔ اِس وقت بھی جبکہ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے،حکومت کے پاس معیشت کو درست کرنے کا نہ تو کوئی فارمولا ہے اور نہ ہی اسے اس بات سے کوئی سروکار ہے کہ معاشی اعتبار سے ملک کس طرف جارہا ہے،ہر طرف لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم ہے،منظور نظر افراد اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں،خزانہ خالی ہے لیکن ارباب اقتدار مفاہمت کی سیاست کی آڑ میں خود بھی کھا اور ہمیں بھی کھانے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،آج ملک کا نظام جس طرح چلایا جارہا ہے اسے دیکھ کر ہمیں بچہ سقہ اور محمد شاہ رنگیلا کا دور یاد آتا ہے،تاریخ بتاتی ہے کہ جب بچہ سقہ کو ایک دن کا اقتدار ملا تو اس نے اپنے ایک روزہ دور حکومت میں وہ سب کچھ کرنا چاہا جو برسوں کا متقاضی تھا،جبکہ محمد شاہ رنگیلے میں اپنی رنگین مزاجی اور عیاشی کی بدولت تخت و تاج تو گنوایا ہی،ساتھ ہی ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرکے عوام کو الگ نچوڑا اور بدحال کیا،یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے،آج ملک کے تمام معاشی،سیاسی اور اقتصادی تجزیہ نگار اِس بات پر متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی کا موجودہ دور پاکستان کی تاریخ کا وہ بدترین دور حکومت ہے جس میں حکومتی بیڈ گورنس اور ملک و قوم کی تباہی و بربادی کی کہانی مملکت کے ہر درودیوار پر لکھی نظر آتی ہے،ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے،مہنگائی میں کئی سو گنا اضافہ ہوچکاہے،بجلی کی جگہ موم بتی اور تیل کے چراغ جل رہے ہیں،گاڑیوں کی جگہ تانگے اور سائیکل استعمال ہورہی ہیں،گھروں میں گیس کے بجائے لکڑیوں پر کھانابن رہا ہے،ہر طرف غربت،بھوک اور افلاس کا راج ہے، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں،مگر حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں رکھتی۔ پاکستانی عوام کی اس سے بڑی بدقستمی اور کیا ہوگی کہ انہیں جو بھی جمہوری یا آمر حکمران ملا اس نے ہمیشہ عوام کی کھال ادھیڑی،جو بھی نئی حکومت آتی ہے کہ وہ خزانہ خالی ہونے اور عوام سے قربانی مانگتی نظر آئی،لیکن اب عوام یک طرفہ قربانیاں دے دے کر تھک چکے ہے،ہوش ربا مہنگائی اور معاشی مسائل نے انہیں ذہنی مریض بنادیا ہے،دوسری طرف ارباب اقتدار طبقے کا حال یہ ہے کہ ان کی طرز زندگی اور بودوباش میں کوئی فرق نہیں آرہا،نہ ہی فضول خرچیاں بند ہورہی ہیں اور نہ ہی یہ لوگ اپنی بیرون ملک بنکوں میں پڑی دولت واپس پاکستان لانے کو تیار نہیں ہیں،یہ وہ حالات ہیں جو ہر محب وطن پاکستانی کو دہلا رہے ہیں،معاشی موت ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے مگر ہمارے صدر مملکت محترم ،معزز وزیراعظم اور سیاسی قیادت اِس حقیقت کے ادراک سے محروم ہے،قوم کو صبر اور کفایت شعاری کا درس دینے والوں کو اِس بات کا احساس بھی نہیں کہ جن وسائل کے بل بوتے پر وہ عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں وہ ان کے پاس ملک و قوم کی امانت ہے،انہیں تو صرف جمہوریت بچانے اور اپنی مدت پوری کرنے کی فکر لاحق ہے،خواہ ملک میں قحط جیسی ہی صورتحال کیوں نہ پیدا ہوجائے،خدارا ملک و قوم پر رحم کیجئے،ستم رسیدہ قوم پر اتنا ظلم مت کیجئے کہ قوم کا سیاسی قیادت اور موجودہ طرز جمہوریت سے اعتماد و یقین ہی اٹھ جائے اور وہ یہ کہنے پر مجبور نہ ہوجائیں کہ ایسی جمہوریت سے آمریت بہتر ہے۔ تحریر : محمد احمد ترازی