کہتے ہیں تعلیم ترقی کی شاہ کلید ہے اور علم قوموں کی ترقی کی بنیاد و اساس ہوا کرتا ہے ، یہ حقیقت ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار ہمیشہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے، دنیا میں وہی قومیں اور ممالک باوقار مقام کے حامل ٹھہرے جنھوں نے اِس گوہر کمیاب کے حصول کیلئے حکمت عملی وضع کی ، لیکن اِس کے برعکس جن قوموں نے تساہل سے کام لیا اور لاپروائی برتی وہ قومیں جغرافیائی آزادی کے باوجود ذہنی غلامی سے نہ نکل سکیں،یہ قومی ترقی کے پرکھنے کا رائج الوقت پیمانہ ہے ، اِس اصول کی روشنی میں وطن عزیز کا جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق مطلوبہ حکمت عملی کبھی وضع ہی نہیںکی جا سکی، نتیجتاً ہمارا شمار اُن قوموں میں ہونے لگا جن کا وجود ہی سوالیہ نشان ہے، سردست اِس تشویشناک صورتحال ، اسباب ومحرکات اور پس پردہ عوامل کاجائزہ ہمارا مقصود نظر نہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ نصف صدی سے زیادہ سفر طے کرنے کے باوجود اگر ہم تعلیمی میدان میں کوئی قابل قدر ترقی نہ کر سکے تو اِس کی سب سے بڑی وجہ ارباب اقتدار کی عدم دلچسپی اور پہلو تہی ہے، حالانکہ ایک وقت وہ بھی تھاجب تعلیمی ترقی کی وجہ سے مسلمان دنیا کی امامت کے مرتبے پر فائز تھے۔
یہ وہ دور تھا جب مغرب اپنے تاریک ترین دور سے گزر رہا تھا ، مگر قرطبہ کی جامعات دنیا بھر میں علم وفن کی روشنی پھیلا رہی تھیں ، لیکن جب تعلیم و تعلّم اور شمشیر و سناں کی جگہ طاؤس و رباب نے لے لی تو ہماری تنزلی کا دور شروع ہو گیا، تعلیمی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے وہ جو کبھی اقوام عالم کے سردار تھے، اغیار کے غلام اور محکوم ہو گئے ، آج حال یہ ہے کہ دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے اغیار کے پاس ہیں اور پوری دنیا سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے لوگ اُن کی طرف رخ کرتے ہیں، دوسری طرف ہماری تعلیمی ترقی کا حال یہ ہے کہ دنیا کی بڑی جامعات کی فہرست میں دور دور تک ہماری کسی یونیورسٹی کا نام نظر نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا شعبۂ روز اوّل سے ہی عدم توجہی کا شکار رہا ہے، ہر حکومت نے تعلیمی کمیشن تشکیل دیئے ، نت نئی تعلیمی پالیسیاں بنائیں،تعلیمی فروغ کیلئے کاغذی ادارے قائم کئے، مگر ہمارا نظام تعلیم جوں کا توں ہی رہا ، جبکہ دنیا کا دستور یہ ہے کہ قومیں اپنی ترقی اور کامیابی کیلئے ادارے تعمیر کرتی ہیں ، اُن کی مسلسل پرورش کرتی ہیں ، پروان چڑھاتی ہیں اور انہیں بہتر سے بہتر بناتی رہتی ہیں، تب جاکر کہیں برسوں بعد نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
Pakistan Rulers
وہ اِس حقیقت سے واقف ہیں کہ ادارے ہی قوموں کا اثاثہ اور میراث ہوتے ہیں جو ثمربار اور گھنے درختوں کی مانند آنے والی نسلوں کو نہ صرف سایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ ترقی و خوشحالی کا پھل بھی مہیا کرتے ہیں ، مگر اِس کے برعکس ہم نے اپنی 65 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ توجہ ادارے بنانے کی بجائے انہیں کمزور کرنے اور توڑ نے پر صرف کی ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شعبے میں ہم پیچھے رہ گئے ، بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا یہ شغل آج بھی جاری ہے ،اگر اتفاق سے کسی دور حکومت میں کوئی ادارہ وجود میں آ بھی گیا تو اِس کے درپے ہونا ، آنے والے حکمرانوں نے اپنا فرض منصبی سمجھا، خوش قسمتی سے سابقہ دور آمریت میں ادارہ سازی کے میدان ایک قابل تعریف کام سرزد ہوا، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام تھا ، لیکن موجودہ حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد سے مسلسل اِس کوشش میں مصروف رہی کہ کسی طرح اِس ادارے کو اپنے قابو میں لایا جائے، اِس مقصد کیلئے اُس نے مختلف حربے استعمال کئے ، مگر ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اب ایک بار پھر اِس ادارے کی خود مختاری کے خاتمے اور چیئرمین کے عہدے کی معیاد کم کرنے کیلئے حکومتی جماعت کے چند ارکان نے” پرائیویٹ ممبرز ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل” پیش کیا ، جسے 23 جنوری کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کر لیا۔
اِس بل کا ایک پس پردہ مقصد یہ بھی ہے کہ اُن 393 ارکان پارلیمنٹ کو متوقع نااہلی سے بچایا جائے ،جن کی ڈگریوں کی تصدیق 2010 میں سپریم کورٹ کی دی گئی ہدایات کے باوجود حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے اب تک نہیں ہو سکی اور اِن ارکان پارلیمنٹ کی اسناد کو مشکوک یا جعلی سمجھا جا رہا ہے اور جب تک اِن ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہوجاتی اِن افراد کو اگلا الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملے گی ، اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ملک کا ایک موقر ادارہ ہے ، جس نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے بہت کم وقت میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں،اعلیٰ تعلیم کی پالیسی، معیار کی نگرانی، اُس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا، اسناد کی توثیق ، نئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام اور پہلے سے موجود اداروں میں تعلیم و تدریس کے انتظامات کی بہتری ، اِس ادارے کے فرائض میں شامل ہے، یہ کمیشن 2002 میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں معرض وجود میں آیا، ڈاکٹر عطاالرحمن 2002 سے2008 تک اِس ادارے کے سربراہ رہے، جنھوں نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور اِس کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے قابل ستائش انقلابی اقدامات کیے، کئی ہزار اساتذہ کو ڈاکٹریٹ کیلئے دنیا کے ممتاز تعلیمی اداروں میں بھیجا ، ملک کے اندر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کیلئے اہلیت کے معیار کو بلند کیا، ملک کی جامعات میں متعدد تحقیقی منصوبے شروع کیے اور اِن مقاصد کے حصول کیلئے تعلیمی بجٹ میں حتی الامکان اضافہ کروایا۔
HEC
مگر موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعدیہ شعبہ بری طرح نظر انداز کیا گیا،جس کے نتیجے میں ملک کی جامعات شدید مالی مسائل کا شکار ہوئیں ، بیرون ملک سرکاری وظائف پر پی ایچ ڈی کیلئے جانے والے ہزاروں افراد کے وظائف بھی بند ہو گئے، تاہم مشکلات کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر جاوید لغاری نے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا کیں ، چونکہ 2008کے الیکشن میں ارکان پارلیمنٹ کیلئے گریجویشن کی شرط لازمی تھی، اِس لیے انتخابات کے بعد بعض ارکان کی ڈگریوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ، جن میں سے متعدد ڈگریاں جعلی نکلیں تو عدالت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تمام ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی توثیق ضروری قرار دی،جس کے بعد سے کمیشن اور اُس کے سربراہ کیلئے آزمائشوں کا دور شروع ہو گیا،قومی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق جب کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری نے جعلی ڈگریوں کو اصلی قرار دلوانے یا اِس کام میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کرنے کے حکومتی مطالبے کو ماننے سے انکار کیا تو اُن پر مستعفی ہونے کیلئے دباؤ ڈالا گیا ،جب وہ جھکنے کو تیار نہیں ہوئے تو اُن کے بھائی کو یکے بعد دیگر مقدمات میں ملوث کیا گیا ، اُن کے آبائی فارم ہاؤس پر چھاپہ مار کر وہاں کام کرنے والے کسانوں کو گرفتار کیا گیا، لیکن کمیشن کے چیئرمین اِن تمام ہتھکنڈوں کے باوجود اپنے جائز موقف پر ڈٹے رہے تو 18ترمیم کے ذریعۓ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی،مگر سپریم کورٹ کی مداخلت کے باعث یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا،جس کے بعد حکومت نے کمیشن کے فنڈز میں چالیس فی صد کمی کر دی،جب فیکلٹی ارکان، عملے ، طلبہ اور دیگر ملازمین نے ملک گیرہڑتال کی تواُسے 20 فیصد فنڈز فراہم کر دئیے گئے۔
بعدازاں ایچ ای سی کا انتظامی اورمالی کنٹرول وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی ، مگر اِس نوٹیفکیشن کو سندھ ہائی کورٹ نے منسوخ کر دیا ، جس پر حکومت نے ایچ ای سی کو اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے ایک اور قدم اٹھایا اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹرکی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم نے سیکرٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ قائم مقام ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھال لیں ، حالانکہ اِس اسامی جس کی تقرری کمیشن کا اختیار ہے ،ایچ ای سی پہلے ہی اشتہاردے چکی تھی ، چنانچہ چیئرمین ایچ ای سی نے اِس صورتحال کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ، جس کے بعد ایچ ای سی اور حکومت کے درمیان ایک نئی جنگ چھڑ گئی جو ایک بار پھر سپریم کورٹ جا پہنچی ، عدالت عظمیٰ نے حکومت کا حکم معطل کرتے ہوئے ایچ ای سی کو ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی تقرری کا حکم دیا ، اِس طرح ایک اور شکست حکومت کے حصے میں آئی اور وہ ایک بار پھر اِس ادارے کے سربراہ کو زیر نہ کر سکی ، چنانچہ حکومت نے کمیشن کو بے دست وپا بنانے کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قانون میں ترمیم کا اعلان کر دیا، جس کا مقصد کمیشن کی خود مختاری کے خاتمے اور چیئرمین کے عہدے کی میعاد کو کم کرنا ہے تاکہ موجودہ سربراہ سے نجات حاصل کرکے کسی ایسے شخص کو کمیشن کا چیئرمین بنایا جا سکے جو حکومت کے ناجائز مطالبات کو پورا کرنے میں لیت و لعل سے کام نہ لے اور اُن 393 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کواِس بل کی منظوری کے ذریعے نااہلی کی تلوار سے بچایا جا سکے۔
National Assembly
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ابھی یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا ہے، اگر یہ بل اگلے مراحل طے کرکے باقاعدہ قانون بن جاتا ہے تو اِس سے نہ صرف جعلی ڈگری ہولڈرز جعلسازوں کی حکمرانی کی راۂ ہموار ہوجائے گی بلکہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل تاریک اور بیرون دنیا میں ہمارے تعلیمی معیار کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوکر رہ جائے گی ، تعلیمی تباہی و بربادی کایہ منظر نامہ نقش دیوار ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایچ ای سی کی کارکردگی سے متاثر ہو کر ترکی ، سری لنکا اور بنگلہ دیش سمیت متعدد ممالک اِس طرز کا ادارہ قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں، جبکہ بھارت اِس سے ایک قدم آگے سپر ایچ ای سی قائم کرنے جا رہا ہے تاکہ تعلیمی میدان میں بلاشرکت غیرے قیادت کا تاج اپنے سر سجا سکے، دوسری جانب ورلڈ اکنامک فورم کے اعداد وشمار اعلیٰ تعلیم و تربیت ، ٹیکنالوجی اورجدت کے حوالے سے پاکستان میں گزشتہ تین سال کے دوران دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتری دکھا رہے ہیں ، جو اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات کے فوائد حاصل ہو رہے ہیں ، مگر افسوس ہماری حکومت ایک قابل قدر ادارے کو اپنی ذاتی عناد اور انتقام کا نشانہ بناکر تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھرکی جامعات کے وائس چانسلرز اور ماہرین تعلیم کی بڑی تعداد نے اِس مجوزہ ترمیمی بل پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اُن ماہرین کا موقف ہے کہ ایچ ای سی کا قیام 2001 میں قائم کردہ اسٹیئرنگ کمیٹی اور ٹاسک فورس کے 18ماہ پرمحیط مشاورت سے عمل میں لایا گیا تھا ،لیکن مجوزہ ترمیمی بل میں کسی بھی اسٹیک ہولڈر سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی،نہ ہی حکومت نے ملک کی 140 یونیورسٹیوں اور ایک لاکھ سے زائد فیکلٹی سمیت کسی فرد یا ادارے سے مشورے کو اہم جانا ،چنانچہ اِس تناظر میں اِس بل کی منظوری سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں ، یقینا ملک بھر کے ماہرین تعلیم اور جام عات کے وائس چانسلرز کے خدشات بجا ہیں ، حکومت 393 جعلی ڈگری ہولڈر کو بچانا اور کمیشن کو اپنے کنڑول میں لا کر ایک ایسے ادارے کو عضو معطل بنانا چاہتی ہے جس کی کارکردگی کا اعتراف اندرون اور بیرون ملک بھی کیا جا رہا ہے، قارئین محترم ! ہائر ایجوکیشن کمیشن پر پے درپے حکومتی حملوں سے اُس کے عزائم واضح ہیں ،آج ایک بار پھر ایچ ای سی پر خطرات کے گہرے اور مہیب سائے منڈلا رہے ہیں ، یہ خطرات ہمہ پہلو سنگین اور علم دوست طبقات کیلئے باعث تشویش ہیں،جن سے مقابلے کیلئے مشترکہ اور منظم جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے۔
Supreme Court Pakistan
لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں،سماجی حلقوں اور سول سوسائٹی کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی اِس تعلیم دشمن پالیسی اور فیصلے کے خلاف متحد ہو کر واضح لائحہ عمل اختیار کریں اور اِس ادارے کی آزادی و خود مختاری کو قائم رکھنے اور اپنی نسلوں کو فکری و نظریاتی بربادی سے بچانے کیلئے آگے آئیں ، ساتھ ہی ہماری سپریم کورٹ سے بھی گزارش ہے کہ وہ حکومت کے اِس تعلیم کش پالیسی بل کے خلاف ازخود نوٹس لے کر وطن عزیز کے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک اورجہالت کے اندھے گڑھوں میں گرنے سے بچائے۔