ایک آرزو
Posted on June 11, 2012 By Adeel Webmaster علامہ محمد اقبال
Allama Praying In mosque
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سے جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کا کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مئوذن
میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائین اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
علامہ محمد اقبال