اگر ہماری سوچ یہ ہے کہ امریکہ کی نظر میں پاکستان کے مفادات اہم ہیں تویہ ہماری بہت بڑی بھول ہے کیونکہ جب امریکہ کی نظر میں پاکستان کی ہی کوئی اہمیت نہیں تو پاکستان کے مفادات اور خودمختاری کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔ ہمیںاپنے حالات کے مطابق اپنے وسائل اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے فیصلے کرنے چاہئے۔ پیٹ بھرنے کے لئے سود پر قرض لینے سے بہترہے بھوک سے مرجانا۔دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیںجو اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ آج بحیثیت قوم ہمیں سخت ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کوسمجھ لیں کہ ہم کون ہیں، ہم کہاں ہیں اور ہماری منزل کہاں ہے۔ زندگی میں ہمیں ذاتی فلسفے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔ہم کون ہیں ،ہم کہاں سے آئے ہیں، ہمیںکہاں جانا ہے، ہم کیا چاہتے ہیں ،ہماری منزل کہاں ہے اور ہمیں اپنی منزل حاصل کرنے کے لئے کیاکرنا ہوگا ،اگرہم ان سوالوں کے جواب تلاش نہ کریں تو پھر ہماری حالت شاخ سے ٹوٹے ہوئے اس پتے جیسی رہے گی جو ہوا کے رخ کے ساتھ چلنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا (جیسی کے آج ہماری ہے) اور ہم اپنے آپ کوچاروں طرف بھاگتا ہواہائیں گے اور پھر نہ تو ہماری کوئی سمت رہے گی اور نہ ہی کوئی منزل ملے گی۔دنیا میں وہی قومیں باوقار ہوتی ہیں جواپنی تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی گزارتی ہیں۔کامیاب وہی قومیں ہوتی ہیں جن کی اپنی اقدار ہوتی ہیں اور جو عزت نفس کا گہرا احساس رکھتی ہیں۔ کامیابی کے ساتھ آگے وہی قومیں بڑھتی ہیں جن کی کوئی سمت ہوتی ہے۔
جب متضاد خیالات کا طوفان قوموں کو اندھیری کھائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے تو وہ دوسری قوموں کے وقتی فیشن کے سیلاب میں بہہ جاتی ہیں۔ایسے حالات میں وہی قومیں ڈٹی رہتی ہیں جن کے اپنے اصول اور آدرش ہوتے ہیں ،جو عزت نفس کی حامل ہوتیں ہیں ،اور جو اپنے فیصلے خود کرتیںہیں ۔ لیکن ہم نے سدا سے عالمی جاگیردار یعنی امریکہ کے فیصلوں پر ہی لبیک کیا ہے۔بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ فیصلے تو امریکہ بہادر کرے اور ان فیصلوں میں ہمارے مفادات محفوظ ہوں ۔آج ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہمیں پرانے قرض کا سود چکانے کے لئے نیا قرض لینا پڑرہا ہے۔ اورحال ہی میں جو قراداد رکن امریکی کانگریس کے ڈینا روہرکر نے امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے عوام کواپنے لئے آزاد ملک حاصل کرنے کا حق ہے ۔اس قراداد کے بعد تو امریکہ کا بھیانک روپ کھل کر سامنے آچکا ہے ۔لیکن یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے جہاں پاکستان کو توڑنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور ہمارے حکمران ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ ہمیں بلوچوں کا احترام کرنا ہوگا ،بلوچ رہنمائوں کی مشاورت سے اے پی سی بلائینگے ۔لیکن قوم پوچھ رہی ہے کہ کب احترام کریں گئے ہم بلوچوں کا احترام خدانخواستہ تب کرینگے ؟جب ملک ٹوٹ جائے گا ۔میرے خیال میںیہ صرف ناراض بلوچوں کو اعتماد میںلینے کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کو اعتماد میں لینے کا وقت ہے، مگر حکمران ایسا کچھ نہیں کریں گے ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم اتنے ہی غلامی پسند تھے توپھر ہمارے بڑوں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے اپنی جانیں کیوں قربان کر ڈالیں۔
اگر ہم نے آزاد ہونے کے بعد بھی انگریزی طرز زندگی اپنانا تھا تو آزادی حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی اس طرح کے اور بھی بہت سے سوال اب میرے ذہن میں گھومتے رہتے ہیں۔ خیر بات کرتے ہیں آج کے موضوع پر وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے ناراض بلوچوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا علان کیا اور اس کے ساتھ ہی ناراض بلوچوں کو حکومت کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دے دی ہے ۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ رحمٰن ملک کا اعتبار کون کرئے گا رحمٰن ملک کو شاید میڈیا کے کیمرے بہت پسند ہیں۔ تو وہ وزیرداخلہ لیکن فرائض وزیراطلات و نشریات کے ادا کرتے ہیں ، وزیردخلہ نے ناراض بلوچوں کو ایک دلکش پیش کش کی ہے کہ اگر وہ وطن واپس ائیں تو وہ خود ان کا استقبال کریں گے لیکن سوچنے کی بات یہ کہ موجودہ حکمرانوں نے ماضی میں کتنے وعدے پورے کئے ہیں ۔گزشتہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے 2وعدے اور وہی دو نعرے بھی تھے یعنی عدلیہ کی بحالی اور روٹی کپڑا اور مکان ۔عدلیہ تو بحال ہوگئی لیکن اس بحالی کاسہرا سجا وکلاء برادری ، مسلم لیگ ن اور میڈیا کے سر۔جنرل مشرف کے دور آمریت میں جب چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے جج صاحبان کو ان کے عہدوں سے زبردستی برطرف کیا گیا تو اس وقت وکلاء برادری نے مشرف کے اس اقدام کی نہ صرف شدید مذمت کی بلکہ ایک ایسی ملک گیر تحریک چلائی جو چیف جسٹس کی ان کے عہدے پر بحالی پر کامیابی کا جشن منا کر اختتام پزیر ہوئی۔
سب جانتے ہیں کہ اس تحریک میں پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے بھی بھرپور حصہ لیا ۔جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تو اس وقت ملک میں پرویز مشرف کی آمریت تھی شاید اسی وجہ سے سب سیاسی جماعتوں نے وکلاء تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا تاکہ آنے والے الیکشن میں عوام سیاست دانوں کو اعلیٰ عدلیہ کا حامی جان ووٹ دے دیں ۔اور ایسا ہی ہوا عوام نے ایک ایسے طاقتور آمرکو اپنے ووٹ کی طاقت سے زیر کردیا جو نہ تو کبھی سیاست دانوں سے زیر ہوا تھا اور نہ ہی عدلیہ سے ۔یہاں اگر میڈیا کو کریڈٹ نہ دیا جائے تو نا انصافی ہو گی کیونکہ اگر میڈیا اس تحریک کو عوام کے سامنے نہ لاتا تو وکلاء تحریک کی کامیابی بہت ہی مشکل تھی ۔لیکن آج کا موضوع حکومتی وعدے اور اعلانات ہیں ۔قارئین ہم سب جانتے ہیں پاکستان کی سب سیاسی جماعتوں نے اس وعدے کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا تھا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی چیف جسٹس سمیت تمام معذول عدلیہ کو ان کے عہدوں پر بحال کر دیں گی ۔اور پھرآخر کا ر عوام کے منتخب ایوان نے جب سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم چنا تو وزیراعظم کی حیثیت سے سیدیوسف رضاگیلانی نے پہلا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر تمام معذول جج صاحبان کو رہا کیا جائے ۔وزیراعظم کے منہ سے یہ لفظ نکلے ہی تھے کہ پولیس نے فوری طور پر بغیر کسی تحریری حکم نامے کے ججز کورہا کردیا ۔اس وقت سب کو یوں محسوس ہوا جیسے پیپلز پارٹی نے اپنا وعدہ پورا کردیا لیکن ایسا نہ ہوسکا وزیراعظم کا حکم صرف ججز کی رہائی تک محدود رہا اور عدلیہ بحال نہ ہوسکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی وکلاء تحریک سے آئوٹ ہو گئی ۔جس کے بعد وکلاء تحریک نے لانگ مارچ کی کال دی جس میں مسلم لیگ ن نے اہم کردار ادا کیااور لانگ مارچ ابھی لاہور سے نکلا ہی تھا کہ حکومت نے مجبور ہوکرچیف جسٹس کی ان کے عہدے پر بحالی کا اعلان کردیا۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی بلوچ بھائیوں سے معافی مانگی تھی ۔یا توحکمران معافی کا مطلب نہیں سمجھتے ۔یا پھرتوبہ توبہ کرتا چل خالی جام بھرتا چل والے قول پر عمل پیرا ہیں۔
اگر ہم بات کریں کل جماعتی کانفرنس کی تو ایسی کتنی ہی کانفرنسزہم پچھلے پونے چار سال میں دیکھ چکے ہیں،کیا ایسی ہی ایک کل جماعتی کانفرنس امریکی ڈرون حملوں کے خلاف نہیںہوئی تھی ۔کیا کل جماعتی کانفرنس کے بعد ڈرون حملے بند ہوچکے ہیں اگر بات کریں ناراض بلوچوں پر قائم مقدمات کو ختم کرنے کی تو یہ بات بھی نئی نہیں ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت ایک اور این آراو کی تیاری کر رہی ہے توزیادہ درست بات ہوگی ۔قابل غور بات ہے کہ غریب آدمی تو بے گناہ ہونے کے باوجود کئی کئی سال جیل میں سڑتا رہتاہے لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اعلیٰ ایوان میں غریب عوام کے حق میں کوئی این آراو بل پیش کیا گیا ہو اب بھی ایسا نہیں ہوگا عام معافی کا اعلان صرف خاص بلوچ سرداروں کے لیے ہی ہو گا، ان سرداروں میں زیادہ تعداد ان سرداروں کی ہے جو پاکستان کوسرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے ۔جن کا کہنا ہے کہ وہ امریکی غلامی کوتو قبول کرسکتے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اگر ہم بلوچستان کو صرف اس کے وسائل کی وجہ سے اہمیت دیتے ہیں تو یہ بہت بڑی خود غرضی ہے ۔جہاں پیار محبت نہ ہو وسائل بھی مسائل بن جاتے ہیں ،ہمیں پورے پاکستان کو اپنا وجودتسلیم کرنا ہو گا۔ تحریر : امتیاز علی شاکر