ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا اور بارود کی دھڑکنوں کے سہارے جیے خود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہے ایک شعلہ بنے تاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئے بے حسوں کی حفاظت رہے خواب گاہوں میں پردے لٹکتے رہیں رقص جاری رہیں تاکہ محلوں کے آقا کے دربار میں ایک تالی سے سب کچھ بدلتا رہے جتنے ایوان ہیں دوسروں کے اشاروں کی تعظیم میں سر ہلاتے رہیں ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا ایک شعلہ بنے تاکہ بیٹوں کے لاشے تڑپتے رہیں بین کرتی ہوئی بیٹیوں سے پرے اپنے کشکول ہاتھوں سے لکھے ہوئے عہد ناموں کی تحریر پڑھتے رہیں ہم سے بہتر تھے وہ جن کے ٹکڑے ہوئے جو جنازوں کی صورت اٹھائے گئے ایک بیکار آنسو کی صورت گرے ہم وہ تلوار تھے جو عجائب گھروں کے لیے رہ گئی ایسی بندوق تھے جس کو مفلوج ہاتھوں میں سونپا گیا