معظم نے ان کے ہاتھوں میں تھامی ہوئی صراحیوں کو بڑی للچاہٹ سے دیکھا اور اس کا جی چاہنے لگا کہ کاش وہ بھی ایک نازک صراحی زرقا کے لیئے خرید لے۔ زرقا خود بھی تو ایک ایسی صراحی تھی ممولے سی گردن، پھیلے ہوئے کولہے اور نازک نازک بازو اور پتلے سے ہاتھ اس کا دہن اتنا لطیف اور ننھا تھا کہ اس پر ذرا سی مسکراہٹ بھی دبا ڈال دیتی۔ اس وقت ان ہی ہونٹوں سے نکلی ہوئی اک چھوٹی سی ہاں اسے میلوں کا سفر کرنے پر مجبور کر رہی تھی لیکن صراحی خریدنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
ٹکٹ خریدنے کے بعد اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے بچے تھے جن کے سہارے وہ زرقا کے ہاں بس ٹیکسی میں پہنچ سکتا تھا۔ زرقا کے ہاں ٹیکسی میں پہنچنا بھی تو بہت ضروری تھا۔ کیونکہ رانی اور ککو ہمیشہ نیچے کھیلا کرتی تھیں۔ جب وہ اوپر جا کر سب کو بتائیں گی کہ معظم بھائی یہ لمبی ٹیکسی سے اترے ہیں تو زرقا ایک بار گردن اٹھا کر فخر سے سب کی طرف دیکھے گی اور دل ہی دل میں کہے گی ٹیکسی مت کہو ہوائی قالین کہو شہزادے ہمیشہ باد پا قالینوں پر سفر کیا کرتے ہیں۔
پھر اس کے نازک ہونٹوں پر مسکراہٹ کا بوجھ پڑ جائے گا اور وہ سر جھکا کر بندر روڈ کی رونق کو کھڑکی میں سے دیکھنے لگے گی۔ معظم کا کتنا جی چاہتا تھا کہ ایک بار ان نازک ہونٹوں پر اتنا دبا ڈالے اتنا دبا ڈالے کہ زرقا دوبارہ گھوم کر بندر روڈ کی دور تک پھیلی ہوئی رونق نہ دیکھ سکے۔ اور اس کی آنکھوں کی ساری سرد مہری، بیگانگی اور اجنبیت معظم معظم پکار اٹھے لیکن زرقا ہمیشہ اس کے قریب رہ کر بھی دور دور رہتی تھی۔
بالکل اسی طرح ناشتے کے ٹرے لئے سفید شملے والے بیرے ہوٹلوں سے گزرتے تھے اور دور رہتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ چار انڈے جو وہ لیکر سفر پر روانہ ہوا تھا کچے نکلے۔ ان کے ساتھ اسے ناشتہ کرنا تھا لیکن جب انڈے لائین کے قریب منڈلانے والے ایک کتے نے چاٹ لیئے تو اس نے انتقام کے طور پر چائے سے بھی پرہیز کیا۔ سماسٹہ سٹیشن پر گاڑی کافی دیر تک رکی رہی اور عین اس کے ڈبے کے سامنے مٹھائی والا تالیاں بجا بجا کر پوریاں بیلتا رہا۔
لیکن اس کی جیب میں جتنے پیسے تھے انہیں وہ کراچی کے لیئے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ ان پیسوں کے ساتھ اسے زرقا کے ہاں ٹیکسی پر پہنچنا تھا اسی لیئے وہ ہر سٹیشن پر اس بے اعتنائی سے کھڑکی کی طرف پیٹھ کر لیتا جیسے ابھی کل کا کھانا بھی ہضم نہ ہوا ہو امریکن عورتوں نے نازک صراحیاں خریدیں سفر کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیئے دو ایک رسالے لیئے اور پھر کینوس کے جوتے لچکاتیں اپنے ڈبے کی طرف چلی گئیں۔ معظم کے ساتھ والی سیٹ پر ایک عورت تیسری بار ناشتہ کر رہی تھی۔
اس کا دو سالہ بچہ کیک کو توڑ کر فرش پر بکھیر رہا تھا اور اس کا شوہر اخبار پڑھتے ہوئے کوئی بارھویں مرتبہ کہہ رہا تھا۔ دیکھو بھوکی نہ رہنا – کہو تو کچھ اور منگوا دوں وہ عورت مسلسل کچھ نہ کچھ کھا رہی تھی لیکن شوہر کے اس سوال پر وہ ہر بار کہتی توبہ! گھر جیسا آرام سفر میں کہاں۔ زندگی عذاب ہو گئی ہے نہ کچھ ڈھنگ کا کھانے کو ملا ہے نہ کام کی چائے نصیب ہوئی ہے – کوئی کھائے تو کیا؟ڈیزل انجن نے لمبی سی ہوک بھری پھر گارڈ کی سیٹی سنائی دی۔
گاڑی آہستہ آہستہ رفتار پکڑنے لگی۔ وہ دروازے والی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے لائنوں کا جال بچھا تھا۔ گاڑی ان بھول بھلیوں میں اپنی لائن تلاش کرتی ڈگا ڈگ ڈگا ڈگ بھاگ رہی تھی۔ پھر یک لخت اس کی پشت کی جانب کسی دوسری ٹرین کے گزرنے کا ہنگامہ خیز شور اٹھا۔ پرانی وضع کا انجن دھواں اڑاتا اپنی شافٹ فٹافٹ ہلاتا آنا فانا نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈبوں میں بیٹھے ہوئے مرد عورتیں بچے اس کی پہچان سے بہت پہلے رخصت ہو گئے۔
اس نے گردن موڑی اور سامنے پھیلی ہوئی جھاڑیوں، لائین پر پھیلے ہوئے پتھروں اور اکا دکا درختوں کہ دیکھنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب کی بار اسے زرقا کے ساتھ کوئی فیصلہ کن بات کر کے ہی لوٹنا ہو گا۔ بادلوں میں بسنے والی اس لڑکی کے ساتھ ملکوتی محبت کے کئی سال گزر چکے تھے۔ وہ روحانی خط لکھ لکھ کر تھک چکا تھا۔ زرقا کی پرستش کرتے ہوئے اسے اتنی مدت بیت چکی تھی کہ اب اس کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اس بت کو انسانی سطح پر لا کر پیار کرے۔
اس کے وجود کو محسوس کرے گرم چائے کی طرح سگریٹ کے دھوئیں کی مانند اپنے ملگجے تکیئے کی طرح۔ گاڑی کھٹا کھٹ کراچی کی سمت بھاگی جا رہی تھی اور معظم سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ اس کا رویہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت مختلف ہو گا۔ اس بار آنکھیں جھپکا جھپکا کر ممی ممی کہنے والی گڑیا کو عورت بن کر اس کے قریب آنا ہو گا یا پھر اس کے دل کے سنگھا سن سے اتر کر گمشدگی کے اندھیروں میں ڈوب جانا ہو گا۔