ایک کھلا خط ڈاکٹرطاہر القادری کے نام (منہاج القرآن کے جملہ کارکنان، ممبران، عہدیداران اوروابستگان سے انتہائی معذرت کے ساتھ) جناب علامہ پروفیسر ڈاکٹرطاہرالقادری صاحب ! سنا ہے آپ علامہ بھی ہیں پروفیسر بھی ہیں اور پھر ڈاکٹر بھی ہیں ۔ ہوں گے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن آپ سے پہلے ایک اور بھی علامہ تھے جن کو لوگ علامہ اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔ان کو مصورِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی ہمیں دو قومی نظریے سے آگاہی بخشی۔ انہوں نے ہی اسرارِ خودی سے پردے اٹھا کر ہمیںاپنے اندر کی ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔ انہوں نے ہی ہمیں درویشی کے درس دے کر جہاں بانی اور جہاں داری کے رموز سکھائے ۔غرض احسانات کی لمبی فہرست ہے کیا کیا گنوائیے ۔ لیکن ہم نے ساری زندگی ان پر عرصہ ء حیات تنگ رکھا۔ تنگ دستی ساری زندگی سائے کی طرح اس عظیم شاعر کے ساتھ ساتھ رہی۔ ساری زندگی ہم اُن پر فتوے لگاتے رہے ،اُن کے فلسفے میں مین میخ نکالتے رہے اُن کے خلاف پروپیگینڈے کا بازارگرم رکھے رکھا۔ لیکن جب وہ پردہ فرما گئے تو یہ ہمیں ہیں جو اُن نام بڑے احترام سے لیتے ہیں۔ اُن کو عظیم شاعر اور شاعرِ مشرق کہتے ہیں۔ ہماری ہر تقریر انہی کے اشعار سے شروع ہوتی ہے۔ ہماری ہر گفتگو میں حوالہ انہی کا ہوتا ہے۔ ہم اقبال ڈے بھی بڑے عزت احترام سے مناتے ہیں ۔اس دن ہم انتہائی مدلل انداز میں ان کے فلسفہء خودی کے اسرار و رموز پر گھنٹوں مذاکرے کرتے ہیں۔ غرض ان کی روح کو خوش کرنے کے تمام طریقے آزماتے ہیں تاکہ عالمِ برزخ میں وہ ہماری کارکردگیوں پر جھوم جھوم اٹھیں۔ ہمیں مسئلہ ہے تو صرف اپنے زندہ مشاہیر سے ہے۔ جن کا زندہ وجود ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ آپ کے بھی علم میں ہمیں کوئی شک نہیں ۔بیشک تحقیق و جستجو آپ کا اوڑھنا بجھونا ہے۔ چھ ہزار سے زائد خطابات۔ اور ہر خطاب کا نیا موضوع اورہر نئے موضوع کا اچھوتا انداز۔ اندازِبیاں ایسا کہ ایک عالم دیوانہ شعلہ بیاں ایسے کہ ایک دنیا دیوانی۔ چھ سو سے زائد کتابیں۔ اورہر کتاب کوزے میں سمندر۔ہر تصنیف بذاتِ خود ایک حوالہ ہر تحریر بذاتِ خود حرفِ آخر ۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہماری ہر تقریر میں آپ کی تحریر کا حوالہ ہو گا اور ہماری ہر تحریر آپ کی تقریر ہی کا خلاصہ ہو گی۔ ہم آپ کے خیالات اور افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے دن رات ایک کر دیں گے۔ لیکن اس وقت ہم آپ سے سے انتہائی معذرت خواہ ہیں۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
جنابِ عالی ! آپ کے کارکن آپ کو قائدِ انقلاب کا لقب دیتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ انقلا ب کاجو تصور آپ نے پیش کیا ہے وہ اتناجامع اور اور بھرپور ہے کہ انقلاباتِ عالم کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ عام طور پر انقلاب کا خیال آتے ہی ذہن میں آگ اور خون ،جلاؤ گھیراؤ اور توڑپھوڑ کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن آپ کے دیے گئے انقلابی تصور میں انقلاب کی ابتدا اپنے آپ سے شروع ہوتی ہے۔پہلے اپنے اندر کی دنیا میں انقلاب لانا ہوتا ہے اپنا اخلاق درست کرنا ہوتا ہے اپنی کردار سازی کرنا ہوتی ہے جب اپنی شخصیت میں تبدیلی آجائے تو پھر دوسروں کو بھی اس طرف راغب کرنا ہوتا ہے۔ اور یوں چراغ سے چراغ جلانا ہی انقلاب ہے۔ غرض یہ کوئی خونی انقلاب کا نہیں ہے بلکہ ایک روحانی انقلاب کا فلسفہ ہے جس کے نتائج سطحی نوعیت کے ہرگز نہیں ہوں گے بلکہ یہ ایک عالمی انقلاب کا پیش خیمہ ہوں گے۔ ہم آپ کی ان کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر آپ سے پہلے بھی ایک ہستی تھی جس کو ہم قائداعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔وہ بھی آپ کی ہی طرح ایک ذہین فطین وکیل تھے جس طرح آپ پورے اسلام کا اکیلے مقدمہ لڑ رہے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی تنِ تنہا پاکستان کا مقدمہ لڑا۔جس طرح آپ کی کسی دلیل کا کوئی جواب نہیں دے سکا اسی طرح انہوں نے بھی فرنگی کی زبان میں فرنگی سے اپنی بات منوائی اوردوسری طرف پنڈتوں کی چالوں کو بھی اُن کے اوپر اُلٹ دیا ۔مختصر یہ کہ بیسویں صدی کااگر کسی نے زندہ معجزہ دیکھنا ہے تو وہ پاکستان کو دیکھ لے۔لیکن دیکھیں کہ ہم نے آخر وقت میں اُن کا کیا حشر کیا۔ اُن کی ایمبولینس سڑک پر خراب حالت میں کھڑی تھی اور ڈرائیور کسمپرسی میں مرتے ہوئے عظیم قوم کے عظیم بابائے قوم کو مرتے دیکھتا رہا ۔ پھر دیکھیے اُن کی بہن مادرِملت کا کیا حال ہوا۔ پراسرار حالت میں رات کو وہ اپنے کمرے میں مردہ پائی گئیں۔ لیکن یہ بھی دیکھیں کہ ہم نے بعد میں اُنکو کتنی عزت دی۔ اُن کے کتنا عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا۔ اُن کی تصویر نوٹوں پر چھاپی۔ اُن کے ارشادات اور فرمودات کو اقوالِ زریں کا درجہ دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کریں گے ۔آپ کی تصویر ہمارے دلوں میں ہو گی۔ پاکستان کے ہر گھر میں آپ کی قدِآدم پوٹریٹ ہو گی۔ آپ کے نام کی سڑکیں بنائیں گے ۔شہر کے ہر چوک میں آپ کی فرمائی ہوئی ہر بات کا بینر لگا ہوگا۔ ہم پوری دنیا میں آپ کے انقلابی فکر اور نظریے کا پرچار کریں گے۔ لیکن اس وقت ہم انتہائی معذرت خواہ ہیں۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
جنابِ عالی! آپ کو الازہر یونیورسٹی نے شیخ الاسلام کا ٹائٹل عطا کیا ترک اور شام کے علما ء نے بھی اس کی تصدیق کی۔ کوئی اور معاشرہ ہوتا تو مبارک بادیاں ہوتیں ،خوشیوں کے شادیانے ہوتے مٹھائیاں بانٹی جاتیں کہ ہمارے دھرتی کے ایک سپوت کو عالم ِ اسلام کا اتنا بڑااعزاز ملا۔ لیکن ہمارے کالم نگار آپ کو ہوم میڈ شیخ الاسلام ،ہمارے تجزیہ کا ر آپ کو گھر کا علامہ کہتے رہے۔آپ کے خلاف پروپیگنڈے کی مشین میں ہر کوئی حسبِ توفیق تیل ڈالتا رہا۔ یہ تو یہ امریکہ اور کینیڈا کے پالیسی ساز اداروں نے بھی آپ کی قابلیت کا لوہا مان لیا۔ آپ کو Life acheivement award اور Out standing personality of the century اور نہ جانے اتنے کتنے ہی ایوارڈ دیے گئے ہیں ۔لیکن یقین مانیے اگر نوبل پرائز کمیٹی کے ارکان کو اگر اللہ تعالیٰ ایمان کی دولت سے نواز دے اور تعصب کی پٹی ان کی آنکھوں سے اتر بھی جائے اور وہ اگر آپ کو نوبل پرائز سے نواز بھی دیں تو ہم آ پ کو پھر بھی نہیں مانیں گے ۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
جنابِ والا! آپ کی تحریک منہاج القرآن کو اقوامِ متحدہ میں Consultant کا اعزاز دیا گیا ہے۔ بلا شبہ اس طرح کا رتبہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اس وقت جبکہ عالمِ اسلام میں ہر دینی تحریک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔دنیا کے سب سے بڑے فورم میں اسلام کی صحیح نمائندگی کرنے کا اور اسلام کی اصل تصویر پیش کرنے کا یہ ایک نادر موقعہ ہے۔اب اسلام کا مقدمہ ایک اعلیٰ عدالت میں ہے اور ایک لائق اور قابل وکیل اُس کی پیروی کر رہا ہے اب اُمید کی جا سکتی ہے کہ اسلام اپنے قبضہ گروپوں سے نجات حاصل کر کے آزادی کی سانس لے سکے گا۔ اس پر پوری ملتِ اسلامیہ جتنا بھی آپ پر ناز کرے کم ہے۔لیکن آپ ہم سے کسی ایوارڈ یا تمغے کی امید نہ رکھیں ۔ اس لیے کہ ہمارے تما م ایوارڈ اور اعزازات سیاسی وابستگیوں اور ذاتی دل بستگیوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ہم اُسی کی کارکردگی کو حسنِ کارکردگی کا اعزاز بخشتے ہیں جو ہمارے کلچر کو مزید لچر بنائے اور جوہماری ثقافت میں مزید کثافت کے رنگ بھرے۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
جنابِ والا! آپ کو لوگ ناکام سیاست دان بھی کہتے ہیں اور آپ کی حکمتِ عملیوں کو سیاسی قلابازیوں کا لقب دیتے ہیں۔ واقعی پاکستان کی سیاست ایک بندگٹر بن چکی ہے اور جو بھی اُجلے لباس والا اس گٹر کو صاف کرنے کے لیے آگے بڑھے گا اُس کا دامن تو داغدار ہو گا۔ لیکن ۔۔۔۔انقلابِ ایران کے دوران ایک مشہور آیت اللہ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ تو جناب آیت اللہ ہیں ایمان دار اور دیانت دار ہیں آپ کو کیا پڑی کہ حکومت کرنے کے چکر میں پڑھ گئے۔ اس پر اُن صاحب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کی کتابوں میں آبِ زرسے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ آپ جب یہ مانتے ہیں کہ میں ایماندار اور دیانت دار ہوں تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی ساری دیانت داری، امانت داری ا ور ایمان داری اپنے ساتھ قبر میں لے جاؤں اور میری ان خوبیوں سے میری عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔ بلکہ میں تو کیا ایران کا ہر شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ اُس میں ادنیٰ سی بھی ایمان داری اور دیانت داری ہے تو اُس کے ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ وہ گھر میں نہ بیٹھے اور اپنی ان خوبیوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے انقلاب کا حصہ بنے۔جناب یہ تھا وہ فلسفہ جس کو ایک جنس زدہ اور ہوس پرست معاشرے نے اپنایا اور اپنی تقدیر بدل ڈالی۔ آپ نے متناسب نمائندگی کا جو نظریہ پیش کیا وہ اگر کسی مغربی دانشور نے پیش کیا ہوتا تو بذاتِ خوداب تک مغرب میں بہت بڑا انقلاب آ چکا ہوتااور وال سٹریٹ تحریک کی نوبت ہی نہ آتی۔ کیونکہ آپ نے سرمایہ داری جمہوریت کی بجائے جمہوریت در جمہوریت کا فلسفہ پیش کیا۔اس نظریے پر بحث و مباحثے کا نہ ہونا ایک بہت بڑی قومی غفلت ہے۔آج کی نام نہاد مغربی جمہوریت جس کو ستر سال پہلے ایک مردِ درویش نے سرمایہ داروں کی بازی گری کہا تھا ۔یہی بازی گری ہمارے جیسے ملک میں کرشمہ سازوں کی شیشہ گری بھی ہے۔ کونسا نگینہ کہاں کے لیے مناسب ہے اور کونسی جگہ پر کونسا نگ صحیح ہے۔پہلے ہی سے اس کا فیصلہ آسمانوں کے علاوہ زمین پر بھی ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں ایسے لیڈر کی ضرورت نہیں ہے جو ہمارے آگے برھ کر ہماری رہنمائی کرے بلکہ ہمیں ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمارے پیچھے پیچھے چل سکے۔ جن جن چیزوں سے ہم بیزار ہوں انہی کے خلاف وہ بھی نعرے لگانا شروع کر دے اور جن کے خلاف انقلاب لانے کے دعوے کرے اُن ہی کو اپنے انقلابی سفر کا ہمسفر بھی بنائے۔ ہمیں نظریے اور افکار کی سیاست سے کیا لینا دینا۔ہم عمل اور ردِ عمل کی سیاست کے عادی لوگ ہیں۔ ہم اس وقت ریلیوں کی گرم جوشیوں اور جلسے جلوسوں کی بزم آرائیوں میں بہت مصروف ہیں ۔ہمیں مت چھیڑئیے ۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
جنابِ عالی! آپ نے صرف اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے ہی کام نہیں کیا بلکہ اپنے مسلک اہلِ سنت والجماعت کی بھی کماحقہ خدمت کی ۔آپ سے پہلے سنیت کی مثال اُس مریض کی سی تھی جو پینڈو حکیموں کے ہتھے چڑھ گیا ہواور جس کے کینسر کا علاج معجونوں سے ہو رہا ہو۔بلاشبہ آپ ہی اعلیٰ حضرت کے اصل معنوں میں جانشین ثابت ہوئے ہیں۔آپ نے انتہا ئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا اور بڑے گنجلک مسائل کے انتہائی سادہ حل تجویز کیے ۔خودکش حملوں کے متعلق آپ نے ڈھلمل بیانات اور اگر مگر کی پالیسی کی بجائے دوٹوک انداز میں نہ صرف ان کی مذمت کی بلکہ ان کو صرف ناجائزاور حرام کی بجائے قطعاً حرام ا وریقینا حرام قرار دیا۔ اور قرآن اور سنت اور تاریخی ماخذ کے ذریعے خارجیت کے فتنے کی نشاندہی کی۔ اسی طرح گستاخی رسولۖ کا مسئلہ ایک انتہائی حساس مسئلہ تھا لیکن جس جرات اور فراست سے آپ نے اس مسئلے کا حل نکالا آپ کو اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ آپ کو نہ صرف عقیدے کی باریکیوں پر عبور ہے بلکہ آپ عقیدت کی نزاکتوں کو بھی جانتے ہیں۔ عقیدے اور عقیدت کے حوالے سے آپ کے خطابات سے تما م سُنی علماء استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنیت کے ہر اجتماع میں کی گئی ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی نقطہ آپ ہی کی کسی تحریر یا تقریر سے لیا گیا ہوتا ہے۔ ہم اس فکری سرقے کے مرتکب ہوتے ہوئے بھی مناظرے کی دعوتیںبھی آپ ہی کو دیتے ہیں۔ اگر کہیں خدا نخواستہ آپ سے ہمارا مناظرہ ہو ہی گیا تو وہاں بھی دلائل ہم آپ کی تحقیق سے ہی اخذ کر کے دیں گے۔آپ سے چرائی گئی تحقیق اور فکر سے ہم نے اپنے کاسے بھر لینے ہیں لیکن ہم نے مانناپھر بھی آپ کو نہیں۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
جنابِ والا! ٰ یہ زندہ قومیں ہوتی ہیں جو اپنے زندہ مشاہیر کو یاد رکھتی ہیں اور اُن کو اُن کا اصل مقام دیتی ہیں ۔ امریکہ بہادر جس کو تباہ و بربادکرنے کے ہم روزانہ خیالی منصوبے بناتے ہیں اُس نے دیے گئے کل 826نوبل پرائزوں میں 333نوبل پرائز حاصل کیے ہیں ۔ کراچی اور لاہور جتنی آبادیاں رکھنے والے ملکوں نے بھی پچیس تیس نوبل پرائز حاصل کررکھے ہیں۔ دنیا میں کل ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب یہودی بس رہے ہیں لیکن انہوں نے بھی 160کے قریب نوبل پرائز حاصل کیے ہیں۔یہ سب لو گ جنہوں نے اپنے اپنے ملک وملت کا نام روشن کیا یقینا یہ اپنے ہاں ہیرو کا درجہ رکھتے ہوں گے۔اب اس طرف آئیے اپنی طرف ڈیڑھ ارب کی آبادی رکھنے والی مسلم آبادی میں صرف نو شخصیتوں کو نوبل پرائز مل سکا۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں بھی مذہبی تعصب کارفرما ہو(کھسیانی بلی یہی کہہ کر کھمبا نوچتی ہے اور دل کو جھوٹی تسلی دیتی ہے)لیکن جن جن شخصیتوں پر یہ عنایت ہوئی ہے اُن کا اپنے اپنے ملکوں میں کیا حال ہوا یہ لمحہء فکر ہے۔انوار اسادات اپنے نے ہی فوجی کے ہاتھوں مارے گئے۔ یاسر عرفات کو غدار کا خطاب ملا۔ نجیب محفوظ کو اپنی زمین میں قبر بڑی مشکلوں اور سفارشوں سے ملی۔ احمد حسین زویل کو فوجی ایجنٹ ہو نے کا خطاب ملا۔شیریں عبادی پہلی مسلم خاتون جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا اُس کا یہ اعزاز ہی ضبط کر لیا گیا اور اس کو اپنے ہی ملک میں داخل ہونے کی پابندی ہے۔ اورحان پامک کا ترکی میں برا حشر ہوا۔ محمد البرادی کو غدار قراردیا گیا۔ ان لوگوں کو اپنے اپنے ملک میں کوئی خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔ بنگلہ دیش کے محمد یونس جو مائیکرو فنانس کے ماسٹر سمجھے جاتے تھے اور جن کی بدولت وہاں کی دو کروڑ عوام کو روزگار کے مواقع ملے اور بنگلہ دیش کی ترقی کا پہیہ چلالیکن آخر میں ہو ا یہ کہ ہم نے اُن پر اتنے مقدمے بنا دیے کہ وہ صاحب نوبل پرائز لے کر پچھتا رہے ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں ہمارے ہی مسلمان بھائی نے بھارت کو نیوکلئیر پاور بنایا اور انہوں نے اُن صاحب کو اپنے ملک کا صدر بنا دیا جبکہ ہم نے اپنے ڈاکٹر قدیر خان کا کیا حشر کیا دیکھ کرسر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ زندہ قومیںہی ہوتی ہیںجو اپنے زندہ ہیروز کی قدرکرتی ہیں۔اورجو مردہ قومیں ہیں وہ مرے ہوؤں کے صرف دن ہی مناتی ہیں ۔ اور معاف کیجیے ہم بھی کوئی زندہ قوم نہیں ہیں۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
جنابِ والا! آپ نے کسی وقت ایک کتاب لکھی تھی ٫٫فرقہ ورایت کا خاتمہ کیوں کرممکن،، ۔یہ کتاب آج کل کے موسم میں جبکہ ہر جگہ فضا دھماکوں کے دھویں سے مسموم ہے ایک ٹھنڈی ہوا کا خوشبودار جھونکا ہے۔ اس میں دی گئی تجاویز پر اگر عمل کیا جائے تو فرقہ ورایت ختم ہو یا نہ ہو دلوں میں ایک دوسرے کے لیے گنجائش ضرور پیدا ہوجائے گی۔اور حال ہی میں ارینا ہال ویمبلے میں دوسرے مذاہب کے ساتھ اظہارِیکجہتی کا جو مظاہرہ آپ نے کیا اس کو دیکھ کر برطانیہ اور یورپ میں مقیم مسلمانوں کے شرمندگی سے جھکے ہوے سر فخر سے بلند ہو گئے۔ اس کانفرنس کی تصویریں شاید مستقبل میں نیلامی میں اونچی بولی میں بِکیں۔ لیکن ٫٫ مردہ پرستی کا خاتمہ کیوں کرممکن،، یہ آپ کے بھی بس کی بات نہیں ہے کیونکہ جب تک مردہ پرست زندہ ہیں مردہ پرستی ختم نہیں ہو سکتی۔ بات دوا سے نکل کردُعا تک آگئی ہے۔ہاں ایک صورت ہے کہ آپ ہی جیسی کوئی نیک روح ہاتھ اٹھا کر ہمارے لیے دعُا کرے کہ ہمارے مردہ دل زندہ ہو جائیں ہما ری تاریک روحیں روشن ہو جائیں اورپھر ہم بھی زندوں کی قدر کرنا شروع کر دیںگے۔ مردہ دل صرف اور صرف نیک اور صالح لوگوں کی دعا ہی سے زندہ ہوتے ہیں۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو ایک مردہ پرست قوم ہیں۔