اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ پوری نیک نیتی سے یہ امید کرتے ہیں کہ ترکی اور اسرائیل اپنے تعلقات میں بہتری لائیں گے۔عالمی ادارے کے سربراہ کا بیان ترکی کی جانب سے انقرہ میں تعینات اسرائیلی سفیر کو بے دخل کرنے اور اسرائیل کیساتھ تمام دفاعی معاہدے معطل کرنے کے اقدامات کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں بان کی مون کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک خطے اور مشرقِ وسطی امن عمل کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ اسرائیلی محاصرے کو توڑ کر غزہ جانے کی کوشش کرنے والے امدادی بحری بیڑے پر گزشتہ برس اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے متعلق اقوامِ متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد گزشتہ روز کیا تھا ۔گزشتہ برس 31 مئی کو پیش آنے والے واقعہ میں اسرائیلی فوجی کمانڈوز نے محصور فلسطینی علاقے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے بحری بیڑے کو فلسطین کی بحری حدود میں داخل ہونے سے بزورِ طاقت روک دیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کی کارروائی میں ایک امدادی جہاز پر سوار آٹھ ترک اور ایک ترک نژاد امریکی رضاکار ہلاک ہوگئے تھے۔واقعے کے بعد ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اور ترکی نے اسرائیل سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ واقعہ کی تحقیقات کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک چار رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس میں نیوزی لینڈاور کمبوڈیا کے سابق رہنماں کے ہمراہ فریقین کا ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل کی بحریہ کی جانب سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی قانونی ہے مگر اسرائیلی حکومت نے ان ترک بحری جہازوں کو روکنے کے لیے بہت زیادہ اورنامناسب طاقت کا استعمال کیا جو غزہ جانے کے لیے ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کررہے تھے۔ رپورٹ میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اسرائیل9 ترک شہریوں کو ہلاک کرنے کی تسلی بخش وضاحت پیش نہیں کرسکا، جن میں سے اکثر کوپشت پر، یا انتہائی قریب سے ایک سے زیادہ گولیاں ماری گئی تھیں۔ ترکی نے اسرائیل سے واقعہ پر معافی مانگنے کا مطالبہ کر رکھا ہے جسے اسرائیل نے جمعہ کو ایک بار پھر مسترد کردیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پینل کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ترک بحری جہاز پر سوار ہونے والے اسرائیلی کمانڈوز نے کچھ مسافروں کی جانب سے منظم اور نمایاں پرتشدد مزاحمت کیے جانے پر اپنے تحفظ کے لیے کارروائی کی تھی۔ترکی کے صدر عبداللہ گل نے عالمی ادارے کی رپورٹ کو ترکی کے لیے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ ترک صدر نے رپورٹ کے اس حصے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں غزہ کے اسرائیلی محاصرے کو جائز اقدام قرار دیا گیا ہے۔تاہم اسرائیل نے رپورٹ کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ترکی اسرائیل سے واقعہ پر معافی مانگنے، متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ کی ادائیگی اور غزہ کا محاصرہ اٹھانے کے مطالبات کرتا آیا ہے۔ جبکہ اسرائیل کا موقف ہے کہ اس نے واقعہ پر معذرت کرنے اور معاوضہ کی ادائیگی کا امکان رد نہیں کیا۔ادھر واشنگٹن میں امریکی دفترِ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ کو امید ہے کہ کہ دونوں ملک “اپنے دیرینہ تعلقات میں بہتری کے مواقع تلاش کریں گے”۔