حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم (١)کو اس طرح نہ سمیٹے گا کہ بندوں سے اسے (علم)کھینچ لے(٢)بلکہ علماء کو وفات دینے کے سبب علم کو اٹھائے گا حتیٰ کہ جب کسی عالم(٣)کو باقی نہ چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے (٤)جن سے مسائل دریافت کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے چنانچہ(خودبھی)گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی )گمراہ کریں گے ۔ دورحاضر میں بھی کچھ اسی طرح کے معاملات چل رہے ہیں۔آج علم دین کوسمجھنا ‘جاننا ‘سیکھناصرف مولوی کے لیے ضروری ہے ۔ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اپنے بچے کے کان میں اذان پڑھنے کے لیے ہمیں مولوی کی ضرورت پڑتی ہے ۔جب مسلمانوں کی حالت یہ ہوگی تو مولوی بھی تواسی طرح کے ہوں گے ۔جب کہ اسلام میں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ کم از کم اتنا دین ضرور سیکھے کہ اپنے بچوں کے کان میں اذان کہنے اور اپنے عزیز واقارب کے فوت ہونے پر ان کی نماز جنازہ پڑھ سکے ۔
quran
بد قسمتی سے آج مسلمان اپنے دین اسلام سے بالکل ہی بے خبر ہیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور پاکستان پر اپنی رحمت کرے ۔میرا ایمان ہے کہ جب تک مسلمان اپنے دین کی طرف توجہ نہیں دیں گے ۔اور جب تک پاکستان میں اسلامی قانون نافذ نہیں ہوتا تب تک ملک سے بد امنی ‘لاقانونیت ‘ناانصافی’مہنگائی’لوڈشیڈنگ اور ظلم و جبر کی حکمرانی ختم نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ ہمارے حکمران بھی ہمیں میں سے ہی ہیں ۔جب ہمارے گھروں میں چور ‘ڈاکواورقاتل پیدا ہونگے تو پھر ہمیں نیک حکمران کہاں سے دستیاب ہوں گے ۔عزیز ہم وطنوآج جو حکمران ہم پر مسلط ہیں وہ ہمارے ہی کردہ گناہوں کی سزا ہیں ۔جو حکومت پاکستانی عوام پر کرتے ہیں اورخود غلام ہیں غیر ملکی آقاؤں کے ۔اپنے آقاؤں کے حکم پر ہرروز ایک نیا بجٹ بناتے ہیں ۔جیساکہ وفاقی کابینہ نے منی بجٹ کی منظوری دے دی ہے ‘جوآنے والے چند مہینوں کے دوران پیش کیا جائے گا ۔اس منی بجٹ کا مقصد حکومت کے لیے اضافی وسائل حاصل کرنا ہے ۔
حکومت کی طرف اس منی بجٹ کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے ۔لیکن یہ راز اس وقت راز نہ رہا جب انگریزی زبان میں شائع ہونے والے اخبار بزنس ریکارڈر کو ملنے والے سرکاری دستاویزات نے اس راز کو فاش کرکے رکھ دیا ان دستاویزت کا عنوان کچھ یوں ہے جو بزنس ریکارڈر کو موصول ہوئیں۔2011ء اور2012ء کے نظرثانی شدہ تخمینے اور 2012ء اور2013ء کا بجٹ تخمینہ ۔اخبار لکھتا ہے کہ ان دستاویزات کو یکم جون سے قبل ہی وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جاچکا ہے ۔سرکاری دستاویزات سے ہونے والے انکشاف کے مطابق اختتام کی طرف بڑھتے رواں مالی اور آئندہ مالی سال کے بجٹ کے تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامی امور اور قومی آمدنی میں اضافے کے لیے منی بجٹ ہیش کیا جائیگا یکم جون یہاں سال 2012_13ء کے لیے پیش کردہ بجٹ میں ریونیوکاہدف جی ڈی پی کا 14.3رکھا گیا ہے۔جس میں منی بجٹ کے ذریعے اضافہ کرنے کی کوشش کی جائے گی ‘وفاقی وزیر خزانہ نے کابینہ کویقین دہانی کرائی ہے کہ ان اقدامات کے علاوہ منی بجٹ کے ذریعے بلحاظ جی ڈی پی ٹیکس کی گرتی شرح کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کی جائے گی ۔محترم قارئین بجٹ منی ہویالارج ہو پاکستانی عوام کی قسمت میں روزانہ کا بجٹ لکھا جا چکا ہے ۔
Gillani
وہ اس لیے کہ بجٹ ہماری حکومت نہیں بناتی بلکہ حکمرانوں کے غیر ملکی آقا بناتے ہیں ۔گستاخی معاف یہ بات میں نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم نے کہی ہے ۔کچھ روز قبل وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کوئٹہ میں کمانڈ اینڈاسٹاف کالج میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔سیکیورٹی کے چیلنجزسے نمٹنے کے لیے بھر پوراقدامات کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان ہواہے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دے کردیگر ملکوں کو بچایا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی اور قومی استحکام لازم وملزوم ہیں ۔پیٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافے سے پاکستان سمیت کئی ممالک متاثر ہوئے ہیں ۔تیل کی قیمت میں اضافے نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کومتاثر کیاہے ۔سنا ہے ترقی پذیرپاکستان کے ترقی یافتہ وزیراعظم نے کچھ دن اپنے لیے لندن سے صرف 80لاکھ کے تین کوٹ خریدے ہیں ۔خیر انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ غذائی اشیاء کی قیمتیں دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں ۔ہمیں آئی ایم ایف سے قرضے اس شرط پر ملے کہ بجلی کے نرخ بڑھائیں گے ۔یعنی پاکستان جو کے پہلے سے مقروض ہے اسے اور قرضوں کی ضرورت ہے اور پاکستان کے وزیراعظم 80لاکھ جیسی بڑی رقم کوٹوں پر خرچ کررہے ہیں ۔پاکستانی عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آج تو آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کی شرط بجلی نرخ بڑھانے تک ہے جسے ہمارے حکمرانوں نے آسانی سے مان لیا ۔اگر کل آئی ایم ایف قرضے دینے کے لیے شرط رکھ دے کہ عوام کو زندہ دفن کردیا جائے تو کیا ہمارے حکمران ایسا نہیں کریں گے؟؟لیکن یہ بات میری سمجھ سے اگر آپ کی سمجھ میں آجائے تو مجھے بھی بتایئے گا ۔اگر پاکستان ترقی پذیر ملک ہے اور ہر روز ایک نئے قرض کی ضرورت ہوتی ہے تو پھرپاکستانی عوام اس قدر امیرحکمرانوں کو کس طرح پالتی ہے ؟؟؟؟
تحریر: امتیاز علی شاکر email.imtiazalishakir .03154174470