سپریم کورٹ(جیوڈیسک)سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتحار محمد چودھری کا کہنا ہے کہ بلوچستان پر عبوری حکم نافذ العمل رہے گا۔ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ میرے علم کے مطابق بلوچستان میں6 ہزار افراد لاپتا ہیں۔
سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی ۔سماعت کے دوران وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی عدالت میں موجود رہے۔صوبائی سیکرٹری داخلہ نے امن و امان سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس میں بتایا گیا کہ صوبے میں تمام محکمے اپنا آئینی اور قانونی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل اور بنچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ رئیسانی حکومت گرا دی گئی تو نئی اتھارٹی نہیں آئے گی ۔حکومت بدلنے کا اختیار صرف عوام کو ہے، اسی دوران وزیرداخلہ رحمان ملک بغیر بلائے روسٹرم پر آگئے تاہم عدالت نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کی۔ وزریر داخلہ نے کہا کہ انہیں نہ سنا گیا تو تاریخ عدالت کو معاف نہیں کر ے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں بلوچستان کے حوالے سے عدالتی احکامات پر سخت تحفظات ہیں۔ رحمان ملک نے کہا کہ بلوچستان کا معاملہ ایسا نہیں جیسیتصویر کشی کی جا رہی ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ ان کے ساتھ آج ہی بلوچستان جا سکتے ہیں جس پر رحمان ملک نے رضامندی ظاہر کی۔رحمان ملک نے کہا کہ میرے علم کے مطابق بلوچستان میں 6 ہزار افراد لاپتا ہیں۔
میرے آنے سے پہلے ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی تھی میں نے بلوچستان کے لاپتا افراد کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈر میں لکھ دیتے ہیں کہ آپ نے لاپتا افراد کو بازیاب کرانے کا وعدہ کیا. جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ لوگوں کو پکڑا یا بازیاب کرانا میرا کام نہیں بلکہ صوبائی حکومت کا ہے میں صرف لاجسٹک سپورٹ دے سکتا ہوں. رحمان ملک نے ایک موقع پر عدالت کو بتایا کہ صوبے میں امن و امان کی خرابی کے ذمہ دار صرف 387 افراد ہیں. جسٹس جواد ایس خواجہ نے مشورہ دیا کہ بلوچستان کے دورے کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں وکلا اورمیڈیا کے نمائندے بھی شامل ہوں۔بعد ازاں کیس کی سماعت بیس نومبرتک ملتوی کر دی گئی۔