کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ انتہائی بے رحم اور سفاک ہوتی ہے حصولِ اقتدار کی خاطر بڑے بڑے اصولو ں کا بلیدان دے دیتی ہے لیکن اقتدار کی دیو ی کو کسی بھی حالت میں نارا ض نہیں کرتی۔ اس کے اندر ن احسان مندی کے جذبات ہو تے ہیں اور نہ ہی ستائیش کا مادہ ۔ سیاست کے اپنے انداز ، ضابطے اصول اور روایات ہیں۔ اگر کسی کو میری بات کی صدا قت میں ہلکا سا بھی شک ہو تو ہ ہو تو اقتدا ر کی خا طر محلا تی سا زشو ں سے جنم لینے وا لی بے رحم داستانو ں سے میری بات کی صدا قت تک بہ آسانی پہنچ سکتا ہے۔ جب ذا تی مفا دات کو ضرب لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو عدو دو ست بن جا تے ہیںاور محسن عدو کی صفو ں میں نظر آتے ہیں گویا دوستی اور دشمنی کسی جو ہرِ خاص کی وجہ سے نہیں بلکہ مفادات کی یکجا ئی کی بدولت جنم لیتی ہے۔ سارے سکے ذاتی مفادات کی ٹکسال سے ڈھل کر نکلتے ہیں اور اپنا جلوہ دکھاتے ہیں پاکستانی سیا ست میں جنرل ضیا ا لحق اور جنرل پر ویز مشرف اسکی بڑی وا ضح مثا لیں ہیں ۔ جنرل ضیا ا لحق کو ذولفقا ر علی بھٹو نے آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دی جبکہ جنرل پر ویز مشرف میا ں محمد نوا ز شریف کے ہا تھوں آ رمی چیف کے عہدے پر فا ئز ہو ئے لیکن د و نو ں جنر لو ں نے اپنے اپنے محسنو ں کے ساتھ جو سلو ک روا رکھا وہ تاریخ کے صفحا ت میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفو ظ ہوکر سیا ست کی بے رحمی کا سب سے بین ثبو ت بن چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) جنرل پرویز مشرف کی اکلوتی اولاد تھی جسے انھوں نے اپنے اقتدار کی خاطر تخلیق کیا تھا لیکن آج وہ اولاد چوہدریوں نے یرغمال بنا رکھی ہے اور جنرل پرویز مشرف در بدر دھکے کھا رہے ہیں ۔ چوہدری برادراں دن رات جنرل پرویز مشرف کی تسبیح پڑھتے نہیں تھکتے تھے اور انھیں فوجی وردی میں سو بار صدر منتخب کروانے کا نعرہ لگا یا کرتے تھے لیکن آجکل جو نام انکی سماعتوں پر سب سے زیادہ ناگوار گزرتا ہے وہ نام جنرل پرویز مشرف کا ہے۔اسکی وجہ یہ نہیں کہ چوہدری سدھر گئے ہیں یا جمہوریت پسند ہو گئے ہیں بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ اب جنرل پرویز مشرف سے ان کو مفادات حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آج کل وہ آصف علی زرداری کا طواف کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ طاقت کا منبہ اب جنرل پرویز مشرف کی بجائے آصف علی زرداری کی ذات ہے۔ ہم خیال گروپ اور بے شمار ٹینڈے ٹاسے ادھر ادھر ٹامک ٹویاں مار رہے ہیں کہ کوئی ا لہ دین کا چراغ ان کے ہاتھ بھی لگ جائے تا کہ ان کے بھی وارے نیارے ہو جائیں۔جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے یہ ساتھی اب جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں اور اپنے کردار کو ایسا مرصع بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انسان کا نسانیت پر سے اعتماد اٹھ جائے۔ ماروی میمن ، سلیم سیف اللہ ۔انجینئر امیر مقام ۔ شیخ رشید احمد، سمیرہ ملک، ہمایوں اختر،محمد علی درانی،کشماللہ طارق، فیصل صالح حیات اوراس دھرتی کے کئی مفاد پرست سپوت مفادات کی نئی بساط پر اپنے اپنے مہرے سجانے کیلئے بیتاب اور کسی نئے آشیاں کی تلاش میں سرگرداںہیں۔ آج کل میاں برادران کے اعصاب پر پی پی پی سوار ہے اور وہ پی پی پی کی مرکزی قیا دت کے خلاف غیر مہذب زبان استعمال کر رہے ہیں اور انھیں الٹا لٹکانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ان کی حالیہ مہم سے مجھے وہ این آر او یاد آگیاجسکی بدو لت میاں برادران موت کی کال کو ٹھری سے سعو دی عرب پہنچے تھے۔ میا ں برادران عدا لت سے سزا یا فتہ تھے اور موت ان کے با لکل سا منے کھڑی تھی لیکن انھو ں نے این آر او کا بھر پور فا ئدہ اٹھا کر جان بخشی کروا لی۔ جن لو گو ں پر میا ں برادران این آر او کے تحت مفادات حاصل کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں ان پر تو انکی اپنی حکو مت میں بھی کو ئی جرم ثا بت نہیں ہو سکا تھاجبکہ خود ان پر جرم ثابت ہوچکا تھا اور سندھ ہائی کورٹ نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔ این آر او سے بھر پور فائدہ حاصل کرنے کے باوجودا ن کی تنقید ی تو پو ں کا رخ مخا لفین کی جا نب ہے اور این آر او کے نام پر لو گو ں کو دھو کہ دینے کی ناکام کو شش کر رہے ہیں۔سچ وہ نہیں جو وہ بیان کر رہے ہیں بلکہ سچ وہ ہے جسے بیان کرنے سے وہ گریزاں ہیں اور سچ یہی ہے کہ میاں برادران این آر او سے مستفید ہو کر رہا ہوئے تھے۔ 1972 میں بھا رت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ذو لفقا ر علی بھٹو نے بھا رت کی اس شا طرا نہ چا ل کے سا منے سینہ سپر ہو جا نے کا فیصلہ کر لیا اور ایٹمی قوت کے حصو ل سے پاکستان کی سا لمیت کا بیڑہ اٹھا لیا ۔وہ شخصیت جو ایٹمی قوت کے حصو ل میں قا ئدِ عوام کے شا نہ بہ شا نہ کھڑی تھی وہ شا ہ فیصل شہید کی شخصیت تھی ۔ شاہ فیصل شہید پا کستان کو ایٹمی قوت بنا نے کے عظیم مشن کی خا طر سا مرا جی قوتو ں کے سا منے ڈٹ گے اور اپنی جا ن کا نذ را نہ پیش کر کے پاکستانی عوام کے خوا بو ں میں اپنے لہو سے رنگ بھر گے ۔پا کستا ن سے وفا اور ذو لفقا ر علی بھٹوسے دو ستی کی رسم کو انھو ں نے جس شا نِ بے نیا زی سے نبھا یا اس نے شا ہ فیصل شہید کی شخصیت کو عز ت و تو قیر کی نئی بلند یو ں پر سر فرا ز کر دیا ۔ ایٹمی قوت کے حصول میں ممکنہ رکا و ٹو ں اور عا لمی دبا ئو کے با و جو د انھو ں نے بڑی جرا ت سے حقِ دو ستی ادا کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ شا ہ فیصل شہید اور ذو لفقارعلی بھٹو شہید کا لہو ہے جو ایٹم بم کی صورت میں پاکستان کے اوپر سا یہ فگن ہے اور پاکستان کی بقا اور استحکا م کا ضا من ہے اور پھر یہ ا ن کے اسی نذرا نے کا اعجا ز ہے کہ پاکستان کا ہر شہری شا ہ فیصل شہید کی انمٹ محبت اپنے دا من میں سمیٹے ہو ئے ہے لہذا جب کبھی بھی بطلِ حجا ز کا نام ان کے لبو ں پر آتا ہے ا حسان مندی اور عقیدت مندی کا بحرِ بے کرا ں ان کی نگا ہو ں میں مو جزن ہو کر ان کی محبت اوردو ستی کا گواہ بن جا تا ہے۔ 1977 میں پی پی پی اور پی این اے میں سیا سی محا ذ آرا ئی اپنے عرو ج کو پہنچ چکی تھی اور پا کستان آگ اور خون میں نہا رہا تھا لیکن سیا سی مصلحتو ں کے پیشِ نظر کو ئی ایک فریق ْ بھی پسپائی اختیار کرنے پر تیار نظر نہیں آ رہا تھا تو عین اسی وقت سعو دی سفیر ریاض الحطیب نفرتوں کی آگ بجھانے اور پاکستان کو ہنگامہ آرا ئی، تشدد اور خا نہ جنگی سے بچا نے کیلئے میدان میں کو دپڑے او ر اپنی سفارت کاری سے دو نوں فریقوں کو کسی عملی سمجھو تے کی جا نب لا نے میں اپنا کردار ادا کیا اور یہ کریڈٹ تو بہر حا ل سعودی عرب کے کھا تے میں ہی لکھا جا ئے گا کہ پاکستان قومی اتحاد اور پی پی پی مذا کر ات کی میز پر مسا ئل حل کر نے پر رضا مند ہو گئے جس کے نتیجے میں ان کے درمیا ن ایک سمجھو تہ طے پا گیا لیکن چو نکہ پی این اے کے چند را ہنما ئو ں نے فو جی قیا دت سے سا ز با ز کر رکھی تھی لہذا ٥ جو لا ئی کو جنرل ضیا ا لحق نے بھٹو صا حب کی آئینی حکو مت کا خا تمہ کر کے اقتد ار پر قبضہ کر لیا اور ٤ اپریل کو بھٹو صا حب کو ایک جھو ٹے مقد مے میں سز ا ئے مو ت دے کر اپنے را ستے سے ہٹا دیا۔حسنِ اتفا ق د یکھئے کہ ١٢ اکتو بر ١٩٩٩ کو جنرل پر ویز مشرف نے میا ں محمد نوا ز شریف کی آئینی حکو مت کا خا تمہ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور طیا رہ سا زش کیس کے ذر یعے میاں صا حب پر وہی تا ریخ دہرا نے کی کو شش کی جو اس سے قبل جنر ل ضیاالحق قا ئم کر چکے تھے لیکن یہ تو سعو دی مدا خلت کا اثر تھا جس نے جنر ل پر ویز مشرف کو ایسی سفا کیت کو ر و بہ عمل لا نے سے رو کا لہذا ایک این آر او طے پا یا جسکی رو ح سے میا ں محمد نوا ز شریف دس سال کیلئے بمعہ اہل و عیال سعو دی عرب میں جلا وطن ہو گے۔ اٹھارہ اکتو بر ٢٠٠٧ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے فقید ا لمثا ل استقبال نے میا ں محمد نوا ز شریف کو وطن وا پسی کیلئے نیا حو صلہ عطا کیا لیکن دس سا لہ معا ہد ہ پا ئو ں کی زنجیر بنا ہوا تھا مگر یہ سعو دی عرب کا دبا ئو تھا جسکی بدو لت جنرل مشرف نے میا ں صا حب کو واپس آنے کی اجا زت دے دی حا لا نکہ اس سے قبل میاں صا حب دو دفعہ پاکستان آنے کی کو شش کر چکے تھے جو نا کا می پر منتج ہو ئی تھی ۔قو می سطح کے دو بڑے را ہنما ئو ں کی وطن وا پسی نے جنرل پر ویز مشرف کے اقتد ار کو متز لز ل کر کے رکھ دیا۔چیف جسٹس کی بحا لی کی تحر یک پہلے ہی عوا می حلقو ں میں بیدا ری کی لہر پیدا کر چکی تھی لہذا عو ا می دبا ئو کے سا منے ٹھہر نا جنرل صا حب کیلئے ممکن نہیں تھا ۔ الیکشن کے نتا ئج نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو زمین بو س کر دیا لہذا وہ ١٨ اگست ٢٠٠٨ کو قصرِ صدا رت خا لی کر کے ملک سے فرار ہو گئے ۔میا ں صا حب نے جنرل صا حب کی اقتدار سے علیحد گی کے بعد دفعہ چھ کے تحت ا نکی گرفتا ری اور ٹرا ئل کا مطا لبہ کر دیا اور اپنے مطا لبے کی راہ میں مزا ھم ہو نے والی ہر آواز کو ھدفِ تنقید بنا نا شرو ع کر دیااور اس تنقید سے پاکستان کا محسن ملک سعو دی عرب بھی محفو ظ نہ رہ سکا۔ جنرل بر ویز مشرف کے ما ر شل لا میں میا ں صا حب کیلئے زند ا نو ں کی سختیا ں بردا شت کرنا ممکن نہیں تھا لہذا ا نھو ں نے شا ہ عبدللہ سے دست بستہ در خو ا ست کی کہ انھیں زند انو ں کی سختیو ں، بھا ری بھر کم زنجیر و ں،جیل کی صعو بتو ں ، اور مار پیٹ کے غیر انسا نی فعل سے چھٹکا را دلو ا یا جا ئے۔شا ہ عبدللہ نے جنرل صا حب کو این آر او پر را ضی کر کے میا ں صاحب کی جان بچائی ۔جب پھا نسی کا پھند ہ سا منے نظر آرہا تھا اور بچنے کی کو ئی صو رت نظر نہیں آ رہی تھی تو اس وقت شا ہ عبد للہ ظلِ سبحا نی نظر آرہے تھے آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے لیکں جب ا قتدار کی دیوی مہر بان ہو گئی تو شا ہ عبد للہ کی مہر با نیا ں ملکی معا ملات میں مدا خلت نظر آنے لگیں اور انھیں اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دیا جا نے لگا۔محسنو ں پر بلا جواز تنقید کے نشتر چلا کرطو طا چشمی کی انتہا کر دی گئی ۔بد لتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کی اس سے بہتر مثا ل تلا ش کر نا ممکن نہیں۔ بقولِ غالب ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے۔۔۔۔تمہی کہو کہ یہ اندا زِ گفتگو کیا ہےسعو دی عرب سے پاکستان کے اسلامی ثقا فتی اور تمد نی مر ا سم ہیں جو آزما ئیش کی ہر گھڑی میں پو رے اترے ہیں ما لی معا ونت کا معا ملہ ہو ،ایٹمی قوت کے حصول کا سلسلہ ہو یا تیل کی بلا معا وضہ سپلا ئی کا مسئلہ ہوسعو دی عرب ہمیشہ ہما رے شا نہ بہ شانہ کھڑا رہا ہے۔ سعو دی حکمر ان ہما رے سچے دوست بھی ہیں خا دم ا لخر مین بھی ہیں لہذا ہما را فخر وناز بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سعو دی عرب کے خلاف میاں صا حب کی بھڑکیں عوا می تائید حا صل کر نے میں بے اثر ثا بت ہو ئیںاور پا ک سعو دی دو ستی ہمیشہ کی طرح سر خرو ہوئی ۔ میا ں صا حب کے بے سرو پا نعرو ں کی وجہ سے سعو دی عرب نے میاں صا حب کو بلا کر معا ہدے کی پا سداری کا حکم سنا یا تو میا ںصاب کے غبا رے سے ہوا نکل گئی انھو ں نے مشرف کے خلاف تند و تیز تنقید سے ہاتھ بھی روکا ، دفعہ چھ کے مطا لبے پر خا مو شی بھی اختیار کر لی اور دس سالہ معا ہدے پر سرِ تسلیم خم بھی کر دیا۔ میاں صاحب کیلئے خفیہ ہاتھوں کا پیغام بڑا واضح تھا کہ خاموشی میں ہی آپکی عافیت ہے لہذا میاں صاحب وقتی طور پر خاموش ہو گئے اور اپنے سارے مطالبات کو فراموش کر دیا۔ انکی پر اسرار خاموشی سے انکے جمہوری قائد ہو نے کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا۔ البتہ اپنے چاہنے والوں کو خوش کرنے کیلئے کبھی کبھی میاں صاحب جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کا مطا لبہ ضرور د ہرا تے ہیں تا کہ سند رہے اور عوام کو اس بات کا شک نہ گزرے کہ میاں صاحب نے اقتدار کی خا طر سودے بازی کر لی ہے اور مشرف کے ٹرائل کے اپنے مطالبے کو خیر باد کہہ دیا ہے حالانکہ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ میا ں صاحب کے مطالبے میں کتنا دم خم ہے۔ آج کل میاں صاحب کو زرداری فوفیا ہو گیا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے صدرِ پاکستان آصف علی زردار ی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ ٢٨ اکتوبر کومیاں برادران نے موچی دروازے میں صدرِ پاکستان آصف علی زردار ی کے خلاف جس طرح کی غیر مہذب زبان استعمال کی یہ ان کے ذہنی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ ان کے اندازِ تکلم نے ان کی ذات کے اندر چھپی ہوئی نفرت کو آشکار کر دیا ہے۔ میاں برادران کو امید نہیں تھی کہ پی پی پی اپنے اتحادیوں کی مدد سے اقتدار کی مسند پر اتنی دیر تک فائز رہ سکتی ہے۔ پنجاب کی وزارتِ اعلی حاصل کرنے کے اور لوٹا کریسی کی مردہ روائت کو زندہ کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے مرکزی حکو مت سے استعفے دے دئے تو وہ بزعمِ خویش یہ سمجھے ہو ئے تھے کہ پی پی پی کی حکومت چند دنوں میں گر جائے گی اور یوں اقتدا ر پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گر پڑے گا لیکن صدرِ پاکستان آصف علی زردار ی نے اپنی سیاسی چالوں سے جس بے دردی سے میا ں برادران کی آرزئوں کا خون کیا اس سے میاں برادران سٹپٹا گئے ہیں اور غیر پارلیمانی حرکتوں پر اتر آئے ہیں ۔ پی پی پی سے زخم خوردہ ہونے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی تحریکِ انصاف نے تحتِ لاہور پر قبضے کا آغاز کر دیا ہے اور ٣٠ اکتوبر کو تحریکِ انصاف کامینارِ پاکستان والا جلسہ ان کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ میا ں برادران اقتدار اور ذاتی مفادات کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ سعودی حکمران جنھوں نے جنرل پرویز مشرف سے ان کی جان بچائی دونوں بھائیوں نے انہی کے خلاف غیر مہذب زبان استعمال شروع کردی۔ صدرِ پاکستان آصف علی زردار ی جنھوں نے ا نہیں پنجاب کی وزارتِ اعلی پلیٹ میں رکھ کر دی ان کے خلاف میاں برادران کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ جنرل ضیا الحق کا نام ان کی لغت سے ایسے غائب ہوا ہے جیسے اس نے کبھی جنم نہیں لیا تھاحالا نکہ میاں برادران کی سیاست کا باوا آدم ہی وہی تھا اور میاں برادران کی موجودہ حیثیت جنرل ضیا الحق کی بدولت ہے۔ سابق صدرِ پاکستان غلام ا سحاق خان اور بہت سے دوسرے فوجی جرنیلوں سے میاں برادران کی باہمی آویزش احسان فراموشیوں کی داستان سنانے کیلئے کافی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جنھوں نے میاں برادران کی راہ میں پھول بچھا ئے اور اقتدار کی راہیں کشادہ کیں میاں برادران نے انہی کا سر قلم کرنے کی کوشش کی جس کا سب سے بڑا مظاہرہ آسف علی زرداری کے خلاف غیر اخلاقی زبان کا بے دریغ استعمال ہے۔ تحریر : طا رق حسین بٹ (چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فو رم یو اے ای)