برما : (جیو ڈیسک) برما میں پارلیمانی کی 45 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں آج ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ مارچ 2011 میں نئی سویلین حکومت کے وجود میں آنے کے بعد ہونے والے ان پہلے پارلیمانی انتخابات کو ملک میں جمہوری اصلاحات کے سلسلے میں پیش رفت سے متعلق اہم آزمائش قرار دیا جا رہا ہے۔ حزب مخالف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سان سوچی 1990 کے بعد پہلی مرتبہ انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہیں۔
دو عشروں قبل عام انتخابات میں ان کی جماعت کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی قیادت نے اقتدار کی منتقلی سے انکار کر دیا تھا اور اس کے بعد سے آنگ سان سوچی نے زیادہ تر وقت قید یا نظر بندی میں گزارا۔ چھ سو چونسٹھ رکنی پارلیمان کی 45 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 44 نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے۔
اس جماعت نے 2010 میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا کیوں کہ نویل انعام یافتہ جمہوریت پسند رہنما کو ان میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ نومبر 2010 کے انتخابات کے بعد آنگ سان سوچی کی نظر بندی ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد انھوں نے سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی شہرت کی بنیاد پر انتخاب جیت جائیں گی، لیکن نتائج جو بھی ہوں ضمنی انتخابات کے بعد بھی حزب اختلاف کو آئین میں ترامیم کے لیے درکار پارلیمانی اکثریت حاصل نہیں ہو سکے گی۔
آنگ سان سوچی کے خیال میں انتخابات شفاف نہیں ہوں گے لیکن ان کے بقول یہ عمل پھر بھی اہمیت کا حامل ہے۔ برما کی حکومت نے انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے پہلی مرتبہ انتہائی محدود تعداد میں غیر ملکی مبصرین اور صحافیوں کو مدعو کیا ہے۔ انتخابات کے نتائج پولنگ کے ایک ہفتے بعد متوقع ہیں۔