بلاد اسلامیہ
Posted on July 26, 2012 By Adeel Webmaster علامہ محمد اقبال
bilad e islamic
سرزمیں دلی کی مسجود دل غم دیدہ ہے
ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے
پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
خانقاہ عظمت اسلام ہے یہ سرزمیں
سوتے ہیں اس خاک میں خیر الامم کے تاجدار
نظم عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمی محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد
ہے زیارت گاہ مسلم گو جہان آباد بھی
اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامان ناز
لالہ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب حجاز
خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوش ارم
جس نے دیکھے جانشینان پیمبر کے قدم
جس کے غنچے تھے چمن ساماں ، وہ گلشن ہے یہی
کانپتا تھا جن سے روما ، ان کا مدفن ہے یہی
ہے زمین قرطبہ بھی دیدہ مسلم کا نور
ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور
بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی
قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے
جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نم ناک ہے
خطہ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدی امت کی سطوت کا نشان پائدار
صورت خاک حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے
نکہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربت ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر
وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہ مصطفی
دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا
خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
تجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی
نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے ، وارث مسند جم کے ہوئے
ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی ، نہ فارس ہے ، نہ شام
آہ یثرب! دیس ہے مسلم کا تو ، ماوا ہے تو
نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
جب تلک باقی ہے تو دنیا میں ، باقی ہم بھی ہیں
صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں
علامہ محمد اقبال