بلیک واٹر کو کوئی نام دے دیا جائے لیکن یہ جانی پہچانی بلیک واٹر کے نام سے ہی جا تی ہے۔ آج سب یہی جانتے ہیں کہ بلیک واٹر کا خالق ایرک پرنس ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا پر چھائی ہو ئی بلیک واٹر بہت چھوٹے پیمانے پر شروع ہوئی اور اسکی اولین صورت گری بھی پرنس نے خود نہیں کی وہ تو ایک ربوٹ کی طرح ملنے والی ہدایات پر عمل کر رہا تھا جبکہ اس نئی کمپنی کے لئے جگہ کا تعین، اسکی منصوبہ بندی اور تقریباً سارے ہی معا ملات بحریہ کے شعبے سیل میں اسکے کے استاد، الکارک نے طے کیئے تھے جو گذشتہ گیارہ برس سے خصوصی مہارت والے اس یونٹ میں آتشیں اسلحے کی تربیت دینے والا بہترین تربیت کار تھا۔ کلارک نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ جب 1993ء میں پرنس نے اپنا ملٹری کیرئر شروع کیا تو وہ (کلارک) پہلے ہی بلیک واٹر کے خاکے اور نقشے بنا چکا تھا۔ اسے یہ خیال آتشین اسلحے کی تربیت دینے کے تجربے سے سوجھا۔ اس نے دیکھا کی امریکی فوجی نظام کے اس اہم ترین شعبے میں تربیت کے لئے دستیاب بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے۔بلکہ سہولیات تھیں ہی نہیں، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ بحریہ کے پاس نشانہ بازی کی مشق کے لئے میدان تک نہیں تھے”اسے میرین کور یا آرمی کے میدان استعمال کرناپڑتے تھے۔ درکار سہولیات متفرق طور پر نجی شعبے سے دستیاب تھیں۔ مگر سب کی سب کسی ایک جگہ سے نہیں مل پاتی تھیں۔ یہ ذیلی تنظیمیں بلیک واٹر کو مزید موثر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ بلیک واٹر اپنے اہلکاروں کوایک دن کے حساب سے ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ بھی اجرت ادا کرتی ہے۔ اتنی رقم کمانے کا عام فوجی سوچ بھی نھیں سکتا۔ بلیک واٹر میں امریکہ کے علاوہ بیرونی ممالک سے سابق فوجی بھرتی کیے جاتے ہیں مثال کے طور پر بوسنیا، فلپائن، اسرائیل اور چلی کے فوجی شامل ہیں۔ ان افراد کا تعلق اپنے اپنے ممالک کی سپیشل فورسز، آرمی یا خفیہ ایجنسیوں سے ہے۔ بہت سے ایسے آرمی کے لوگ مستفی ہونے کے بعد بلیک واٹر کا حصہ بنے جس کی بڑی وجہ زیادہ سے زیادہ پیسے کا حصول تھا۔ بلیک واٹر کو سابق امریکی صدر جارج بش کی خصوصی سرپرستی حاصل رہی۔ ان دنوں ایرک پرنس کے وائٹ ہاوس کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ایرک پرنس امریکی ریپبلکن پارٹی کے اراکین کو مالی امداد بھی فراہم کرتا رہا، جس کے نتیجے میں اس کی کمپنی کو یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنت سے کمپنی کی جملہ آمدنی کا تقریبا نوے فیصد حاصل ہوتا ہے۔۔بلیک واٹر پہلے تو اتنی مشہور نہیں تھی مگر اس وقت دنیا بھر میں میڈیا کی توجہ حاصل کی جب عراق کے شہر فلوجہ میں 31مار چ 2004کو صبح ساڑھے نو بجے بلیک واٹر کے چار لوگ دو پجارو جیپوں میں سوارتھے جیسے ہی فلوجہ میں داخل ہوئے تو عقبی جیپ پر ایک گرنیڈ پھینکا گیا اور ساتھ ہی حملہ آوروں نے مشین گنوں سے اندھا دھند فائر کھول دیا۔ بلیک وا ٹرکے ایک اہلکار نے گاڑی تیز کر دی اور کوشش کی کہ اپنے ساتھیوں کو بچائے یا پھر وہاں سے نکل بھاگے۔ ایک سابق نجی فوج کے کارکن کے مطابق بلیک واٹر اپنے آدمیوں کی اس طرح تربیت کر تی ہے کہ اگر کسی گاڑی پرگھات لگا کر حملہ کر دیا جائے تو اس کی مدد مت کرو۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ ایسی جگہ سے نکل جائو کہ تمہار اپنا بچ جانا ہی دانش مندی ہے۔ ۔ کچھ ہی لمحوں میں جیسے ہی ان کی جیپ دوسری گاڑی سے ٹکرائی انہوں نے اپنے آپ کو گولیوں کی بوچھاڑ میں پایا۔ایک کی کھوپڑی اُڑ گئی۔ دوسرے کی قمیض گولیوں سے چھلنی ہو چکی تھی اور سر ایک طرف کو ڈھلک گیا ۔ ہجوم اکٹھا ہو گیااور جیب کے ٹکڑے کر رہا تھا۔ اسلحہ اور دیگر سامان لوٹا جا چکا تھا۔ کوئی پٹرول لے آیا اور اسے گاڑی اور مردہ جسموں پر چھڑک کر ماچس سے آگ لگا دی چاروں جلد ہی شعلوں میں گھر گئے۔ جونہی اصل حملہ آور فلوجہ کی بغلی گلیوں میںغائب ہوئے تو وہاں موجود مجمع بڑھتا ہی چلا گیا اور اس کی تعدا تین سو نفوس سے تجاوز کر گئی ۔ چاروں کے جسموں سے بُری طرح خون ابل کر باہر آ رہا تھا۔لوگوںکا ایک ہجوم پیجارو کے ہڈ پر چڑھ گیا اور فائرنگ کرتے ہوئے ونڈ شیلڈ کی طرف بڑھا۔ اللہ اکبر کے نعرے فضا میں گونج رہی تھی۔ حملہ آور تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ جلد ہی ایک درجن سے زائد نوجوان جو ایک مقامی کباب ہائوس کے گرد منڈلا رہے تھے اس شدید خون ریزی میں شریک ہو گئے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق بلیک واٹر کا ایک آدمی ابتدائی حملے میں بچ گیا تھاگولیاں اس کی چھاتی میں لگیں بس ہجوم اسے ہی گاڑی سے نکال سکا وہ ان سے زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ انہوں نے اس کا بازو، ٹانگ اور سر کاٹ ڈالے۔ وہ خوش ہو رہے تھے اور ناچ رہے تھے۔ جلی ہوئی جیپ سے جھلسی ہوئی لاشیں نکال لی گئیں اور آدمیوں اور لڑکوں نے ان کی ٹانگیں اور بازو الگ الگ کر کے انہیں واقعی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ کچھ آدمی اپنے جوتے لاشوں پر برسا رہے تھے۔ جبکہ دوسرے دھاتی پائیپوں اور بیلچوں سے لا شوں کے حصوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے تھے۔ ایک نوجوان ایک لاش کے سر پر اس وقت تک ٹھوکریں مارتا رہا جب تک کہ وہ دھڑ سے الگ نہیں ہو گیا۔ ایک نوجوان کیمرے کے سامنے ایک چھوٹا سا بینر اُٹھائے ہوئے تھا جس پہ ایک کھوپڑی اور اس کے نیچے دو ہڈیاں انگریزی حرف Xکی شکل میں بنی ہوئی تھیں اور جو اعلان تھا کہ”فلوجہ امریکیوں کا قبرستان ہےْ۔ نعرے لگنے شروع ہو گئے ہم اپنے خون اور جانوں کو اسلام پر قربان کر دیں گے۔عراقیوں نے ان کی لاشوں کی با قیات دریا ئے فرات کے پل پر لٹکا دیںجسے پوری دنیا کی ٹی وی سکرینوں پر دکھا یا گیا۔ بلیک واٹر جسے جیریمی سکاہل نے اپنی کتاب میں “جنگ کی طوائیں”کا نام دیا ہے، کافی عرصہ سے پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑہے ہوئے ہے۔ پشاور بم دھماکہ کے بعد امریکی سیکیورٹی ایجنسی بلیک واٹر کی پاکستان میں مبینہ موجودگی پر تشویش میں اضافہ ہوا۔ کالعدم تحریک طالبان نے دعویٰ کیاکہ پشاور دھماکے میں بلیک واٹرملوث ہے۔ پاکستان میں بہت سے واقعات ایسے ہوئے ہیں جن کا براہ راست تعلق ابلیک واٹر جوڑا گیاہے ۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بلیک واٹرکے خلاف بہت سے بیانات دیئے ا حتجاج کیا ریلیاں نکالیں،جلسے جلوس ہوئے۔پاکستان پر امداد روکنے کا دبائو ڈال کر سینکڑوں ویزے لیئے گئے ۔ اسی لیئے ایبٹ آباد کمیشن نے امریکہ میںپاکستانی سفیر حسین حقانی کو طلب کیا ہے۔ امریکہ کا تقریباًایک ارب امریکی ڈالر کی لاگت سے اسلام آباد میں دنیا کا سب سے بڑا سفارتخانہ بنانا بھی خطے میں امریکی دائرہ اثر کے پھیلائو کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے 5اگست2004ء کو کراچی پریس کلب کی ایک پریس کانفرس میں یہ عندیہ دیا تھاکہ 1000امریکی کرائے کے فوجی (بلیک واٹر) اسلام آباد میں امریکی مشن میں تعیناتی کے لئے آئیں گے۔ سی آئی اے اور ممکنہ بلیک واٹر نے قبائلی بیلٹ اور بلوچستان میں خفیہ معلومات کی ترسیل کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ایسی رپورٹیں بھی ملی ہیں، جن کے مطابق کچھ غیر ملکی افراد پاکستان کے حساس فوجی مقامات کے قریب دیکھے گئے ہیں گذشتہ چار سالوں میں دہشت گردی کے واقعات کے بے پناہ اضافہ اور ان کاروائیوں کے بلیک وا ٹر کے ساتھ تعلق کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔سلالہ چیک پوسٹ واقع کے بعد حکومت نے درست اور بر وقت فیصلہ کیا۔نیٹو سپلائی روکنے اور شمسی ائر بیس خالی کرانے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تو پوری قوم نے اس حکومتی فیصلے کی حمائت کی۔پاکستان میں بلیک واٹر کی خفیہ سر گرمیوں کوروکنے کے لیے حکومت پاکستان کو بلیک واٹر کو پاکستان سے نکالنے کافیصلہ کر نا ھو گا اس فیصلے میں بھی پوری پاکستانی قوم حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گی۔اور یہ فیصلہ پاکستان کے وقار اور امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تحریر : ممتاز احمد بھٹی