ماں مجھے بیچ دو !دنیا میں کسی بھی ماں کے لئے ایک بیٹی کی منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ یقینانا قابل برداشت ہیں اور ایسا کرنا تو رہا دور کی بات کوئی بھی ماں اپنی اُلاد کے لیے ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ لیکن کیا بھوک غربت بے بسی اور لاچاری ایک بے بس ماں کو ایسا کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ، شاید میں یہ کالم نہ لکھتا اگر میرا قریبی دوست عزیز الرحمان شاکر حاصلپور سے کال کر کے مجھے سلیم کی بے ہسی اور زرین کی بے بسی کی داستاں نہ سناتا اپنے دوست کی زبانی سارا واقعہ سننے کے بعد میں اپنے آپ کو لکھنے سے روک نہ سکا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں اس تحریر کے ذریعے سلیم کی حیوانیت کا پردہ فاش کروں تا کہ سلیم جیسے انسانی کھال میں چھپے ہوئے بھیڑیوں کا اصلی چہر ہ دنیا کا سامنے بے نقاب ہو سکے۔
ضلع بہاولپور کے ایک چھوٹے سے قصبے قائم پور میں رہنا والا سلیم ایک نہائت ہی لالچی انسان تھا اسے بیٹیوں سے سخت نفر ت تھی اسکا یہ سوچنا تھا کہ بیٹیوں کی اچھی پرورش اور تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا بالکل فضول اور نقصان ہے کیونکہ بیٹیوں کو اچھی تعلیم دینے کا فائدہ صرف ان کو ملتا ہے جہاں وہ بیاہ کر جاتی ہیں جبکہ بیٹوں کی پرورش پر پیسہ خرچ کرنا ایک اچھی انوسٹمنٹ ہے جو والدین کو ان کے بڑھاپے میں سود سمیت واپس مل جاتی ہے ایسی گھٹیا سوچ رکھنے والا صر ف سلیم ہی نہیں ہے بلکہ ایسے بے شمار لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔
سلیم کی جب شادی ہوئی تو اس نے اپنی بیوی زرین کو پہلے ہی سے آگاہ کردیا کہ اسے بیٹیوں سے سخت نفرت ہے اس لئے اسے بیٹا ہی چاہیے لیکن شاید وہ بد بخت یہ نہیں جانتا تھا کہ بیٹا یا بیٹی کا پیدا ہونا انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیںہو سکتا ہے پھر ایسے میں کسی انسان کو قصور وار ٹھہرانا سرا سر جہالت اور کفر ہے۔ سلیم بھی ایسے جاہلوں میں سے ایک تھا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سلیم کے گھر اپنی رحمت بھیجی یعنی اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے پورا گھر سر پر اُٹھا لیا بیوی پر تشدد کیا اور نفر ت کی انتہا دیکھئے کہ اس بد بخت انسان نے اپنی پہلی اُولاد اپنی بیٹی کو دیکھنا بھی گوراہ نہ کیا۔ تقریباً تین چار ماہ بعد گھر کے بڑے بزرگوں اور دوستوں کے سمجھانے پر اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور بڑی مشکل سے اس نے اپنی بیٹی کو اپنایا اور وہ بھی اس سوچ کے ساتھ کے شاید اگلی بار بیٹا پیدا ہو جائے۔
لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ اس بار بھی اس کی خواہش کے برعکس اس کے گھر ایک نہیں بلکہ جڑوا بیٹیاں پیدا ہو ئیں لیکن اس بار جو سلیم نے کیا اس نے حیوانیت کو بھی شرمندہ کر دیا پہلے تو اس نے اپنی بیوی پر اتنا تشدد کیا کہ وہ بے ہوش ہو گئی لیکن اس کے غصے کی آگ تب بھی ٹھنڈی نہ ہوئی تو اس حیوان صفت ظالم انسان نے نو مولود بے گناہ بچیوں کے منہ پر تماچے مارنا شروع کر دئیے۔ معزز قارئین یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن جن کے ساتھ اور جن کے سامنے یہ سارا وقعہ پیش آیا ہو گا ان پر کیا بیتی ہو گی شاید میں وہ الفاظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس حیوان کی اس کی اس حرکت کی وجہ سے پورے محلے میں کہرام برپا ہو گیا اور ہر کوئی اسے ایسا کرنے پر لعنتیں دے رہا تھا لیکن یہ کمینہ اپنی درندگی سے پھر بھی بعض نہ آیا اور اس نے غصے میں بہک کر ا پنی بیوی کو طلاق دے دی جس کا قصور صر ف یہ تھا کہ اس نے تین بیٹٹیوں کو پیدا کیوں کیا۔
طلاق دینے کے بعد اس خبیث نے زرین کو اسی وقت تینوں بیٹیوں کے ساتھ اس کے گھر سے نکل جانے کو کہا اور دھمکی دی کہ اگر ابھی ابھی وہ اس کے گھر سے نہ گئی تو وہ اس کو بیٹٹیوں سمیت زندہ جلا دے گا۔ زرین بچاری تو ابھی اس قابل بھی نہ تھی کہ سہارے کے بغیر بستر سے بھی اُٹھ سکے اور پھر ساتھ تین تین معصوم بچیاں ایسی حالت میں وہ کہاں جاتی او رکیسے جاتی خیرچند نیک دل محلے داروں نے زرین اور اسکی بیٹٹیوں پر ترس کھایا اور ان کو سلیم کے ظلم سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے گھر لے گئے۔کچھ عرصے کے بعد جب زرین کی حالت کافی بہتر ہو گئی تو زرین نے ان محلے داروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مصیبت میں اسکا ساتھ دیا اور مدد کی تھی ۔زرین وہاں سے اپنے ایک چچازاد بھائی کے گھر پہنچی اور اسے ساری صورتحال بتائی جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا لیکن بھائی نے بھی اُسے دلاسہ دینے کے بجائے زرین کو ہی بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
Divorced Women
زرین کے بھائی او راس کی بھابھی کا رویہ اس قابل نہ تھا کہ زرین کچھ عرصے کے یہاں پر رہ جاتی لہذا زرین نے اپنے بھائی کا گھر بھی چھوڑ دیا اب بے یارومدمدگار بچاری زرین جاتی تو کہاں جاتی کوئی بھی تو سہارا نہیں بچا تھا کیونکہ زرین کے ماں باپ تو پہلے ہی اس دنیافانی سے کوچ کر چکے تھے ایک بھائی کا سہارہ تھا لیکن اس نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ یہ ایک ماں کے لئے سب سے بڑا امتحان تھا کیونکہ زرین بالکل خالی ہاتھ تھی اور یہ غم اسے اندر اند ر اسے کاٹ رہا تھا کہ وہ تین تین بچوں کی پرورش کیسے کرے گی اور بچے بھی اتنے چھوٹے تھے کہ انہیںکہیںچھوڑ کر وہ کوئی کام بھی نہیںکرسکتی تھی ۔ اب زرین کے پاس بس ایک ہی راستہ بچاتھا جس سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتی تھی اور وہ راستہ زرین کو بُرائی کی ایسی دلدل میں لے گیا جہاں سے وہ پھر کبھی واپس نہ آ سکی۔
زرین اس بازار حُسن میںجا پہنچی تھی جہاں ہر روز وہ خود کو بیچ کر اپنی اولاد پالتی رہی۔ اب اسی بازار میں زرین کو پندرہ سال ہو چکے تھے لیکن زرین کی مصیبتیں ختم ہونے کو نہ تھیں اب زرین کی جوانی بھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی اور اسکی جوانی ڈھلنے کیساتھ ساتھ اسکی آمدن میں بھی کمی آنا شروع ہوگی تھی لیکن اب اخراجات پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکے تھے کیونکہ اب اسکی دو جڑوا بیٹیاں چودہ چودہ سال اور بڑی بیٹی سترہ سال کی ہو گئی تھی لیکن اب زرین کے لئے آہستہ آہستہ اس بازار حُسن کے دروازے بھی بند ہونا شروع ہو گئے تھے اور حالات پھر فاقوں پر آگئے زرین کی بڑی بیٹی اب کافی سیانی ہو گئی تھی وہ اپنی ماں کی پریشانی سمجھ سکتی تھی اس لئے اسے دلاسے دیتی کہ آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائیگا اور ساتھ میں اپنی چھوٹی بہنوں کو بھی سمجھاتی رہتی ۔زرین کی بڑی بیٹی اپنی ماں کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی کہ وہ کیا کرتی ہے کیونکہ یہ اکشر دیکھتی تھی کہ ہر روز شام سات آٹھ بجے اسکی ماں تیار ہوکر گھرکے دروازے پر بیٹھ جایا کرتی تھی پھر کوئی نہ کوئی اسے پیسے دیتا اور اپنے ساتھ لے جاتا لیکن اب وہ دیکھتی تھی کہ کئی کئی گھنٹے تک اس کی ماں سج دھج کر بیٹھی رہتی تھی لیکن کوئی بھی اسے ساتھ لے کر نہیں جاتا تھا۔ جبکہ اس کی ماں سے جوان اور خوبصورت عورتوں کو لوگ اپنے ساتھ بڑی جلدی لے جاتے تھے۔
پھر ایک دن جیسے ہی زرین روز کی طرح اپنے دروازے پر آکر بیٹھی تھوڑی ہی دیر بعد اسکی بغل میں ایک اور لڑکی بھی آکر بیٹھ گئی جب زرین نے اس لڑکی کو غور سے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسکی بڑی بیٹی تھی جو اسی طرح سج دھج کر آئی ہوئی تھی جیسے جوانی میں وہ خود خوبصور ت ہوا کرتی تھی زرین نے اپنی بیٹی کو دیکھ کر غصے سے کہاتم یہاں کیوں آئی ہو اور یہ میک اپ کیوں کیا ہے ، زرین کی بیٹی کی آنکھوں میںآنسوں تھے اور ڈرتے ڈرتے ماں سے بولی !اماں میں سب جانتی ہوں آپ کیا کرتی ہیں میں آپ کو کئی دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ آپ یہاں پر کئی کئی گھنٹے بیٹھی رہتی ہیں آپ کو کوئی بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاتا لیکن جب آپ جوان اور خوبصورت تھیں تو آپ کو یہ لوگ بہت جلدی لے جاتے تھے۔
Mother Importance
اماں آپ نے ہمارے لئے بہت کچھ کیا ہے آپ خود تو بھوکی رہتی ہیں لیکن ہمارے لئے جیسے بھی ہو ہمیں بھوکا نہیں سونے دیا لیکن میں جانتی ہوں کہ اب دن بدن ہمارے حالات مزید خراب ہونگے اور پھر میری چھوٹی بہنیں بھی تو بڑی ہورہی ہیں اس لئے ماں اب یہ سارا بوجھ آپ اکیلی نہیں اُٹھائیں گی میں آپ کا ساتھ دونگی میں میک اپ کر کے اس لئے آئی ہوں کہ اگر آج یہ لوگ آپ کو نہیں خرید رہے ہیں تو آج آپ اپنی جگہ پر ماں مجھے بیچ دو۔ میں آپ کو اس طرح دکھی اور اپنی بہنوں بھوک سے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ بیٹی کے منہ سے یہ باتیں سن کر زرین نے زور زور سے رونا شروع کردیا اور اپنی بیٹی سے کہا تم نے آج مجھے جیتے جی مار ڈالا مجھے جتنا دکھ تہماری یہ بات سن کر آج پہنچا ہے اتنا دکھ اس وقت بھی نہیںہوا تھا جب تمہارے باپ نے مجھے طلاق دی تھی۔بیٹی آج تو نے یہ باتیں کرکے میری ساری محنت رائیگاں کر دی۔ کیا میںنے یہی دن دیکھنے کے لئے اتنی تکلیفیں اٹھائی تھیں اور اگر آج میں نے تمیںاس راستے پر چلنے دیا تو پھر تمہاری ماں کی ہار اور تمہارے اس باپ کی جیت ہوگی جس نے مجھے صر ف اس لیے طلاق دی تھی کہ میں نے بیٹیاں کیوں پیدا کی ہیں اور اگر تم اس راستے پرچلتی ہو تو پھر یاد رکھو کہ کبھی کوئی بھی ماں بغیرباپ کہ بیٹیوں کی پرورش نہیںکرے گی۔ تمہار ا اس راستے پر چلنا نہ صر ف میر ی ہار نہیں بلکہ ایک ماں اور ایک عورت کی ہارہے۔ زرین کی باتیں سن کر بیٹی ماں کے سینے سے لپٹ کر رونے لگتی ہے اور ماں کا آنچل تھامے گھر کے اندر چلی جاتی ہے۔
آج تو زرین نے اپنی سترہ سال کی جوان بیٹی کو بازارِ حُسن میں بکنے سے بچالیا لیکن کل کیا ہوگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے لیکن میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے اور مجھ سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا بازار حسن میں بکنے والی ہر عورت اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے آپ کو بیچتی ہے ، نہیں ایسا بالکل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ عورت جو اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے بیٹی ہے تو باعث رحمت ہے بہن ہے تو عزت کی علامت ہے اور اگر بیوی ہے تو نسلوں کی محافظ ہے اتنے عظیم رتبوں کی مالک حوا کی بیٹی کیسے بازارِ حُسن کی زینت بن جاتی ہے۔ اگر حوا کی بیٹی گھر کی عزت سے بازار حُسن کی زینت بنتی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم اور ہمارا معاشرہ ہے کیونکہ ہم ہی میں سلیم جیسے بھیڑئیے چھپے ہوئے ہیں جو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں اور بیٹیوں باعث زحمت اور سلیم جیسے ہی بے حس او ربے ضمیر مردوں کی ڈسی ہوئی زرین جیسی عورتیں مجبور ہو کر اس بازار میں بکنے پر مجبور ہو جاتی ہیںاور باقی کی رہی سہی کسرہمارے معاشرے کی پید اکردہ بہیودہ رسومات نے پوری کردی ہے۔
جیسا کہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھلیتی ہوئی جہیز کی لعنت ہے اور بیٹوں کے پیدا ہونے سے نفرت کرنیوالے لوگوں کی یہ بھی ایک اہم وجہ ہے اور اسی لعنت کی وجہ سے ہی آج بیٹی کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھا جاتا ہے۔ انسانی کھال میں چھپے ہوئے آج بھی بے شمار سلیم جیسے بھیڑئے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو صر ف بھاری جہیز کے عوض شادیاں کرتے ہیںاورشادی کے بعد صرف بیٹے کی ہی پیدائش چاہتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ شادی نہیں صرف بزنس کرتے ہیں اور یہ ایک نہیں بلکہ بے شمار شادیاں کرتے ہیں ایسے بے ضمیر لوگوں سے بچنے کے لیے ہر والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں۔
جسکو سر سے اتارنے کے لئے جلد بازی میں اپنی بیٹیوں کو بیاہ دیں اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اگرکوئی ان سے بھاری جہیز لینے کا مطالبہ کرے اور صرف بیٹے پیدا کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کرے تو ایسے لوگوں سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں مت کریں کیونکہ ایسے لوگ شادی نہیں بلکہ بیوپار کرتے ہیں۔ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیںاس لئے بیٹی بیاہنے والے اور بیاہ کرلے جانے والے دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے۔ جہیز کے اس بڑھتے ہوئے فیشن نمالعنت کو اگر ختم نہیںکیا گیا اور اس کی کوئی حد مقرر نہ کی گئی تو پھریاد رکھیںکل کو اور بیٹی ازرین جیسی ماں سے یہ کہنے پر مجبور نہ جائے ! اماں مجھ بیچ دو۔