جوگی بابا نے ایک نعرۂ مستانہ لگایا اور لال لال آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے بولے: ” تمہاری کیا خواہش ہے بچہ؟ میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔ جوگی بابا آپکے دفتر کے باہر بورڈ لکھا ہے کہ آپکے حکم سے محبوب قدموں پر آن گرتا ہے، آپ روتوں کو ہنساتے اور ہنستوں کو رلاتے ہیں۔ میری بھی مدد فرمائیے کوئی ایسا منتر بتائیے، جسکے پڑھنے سے میری بھی کایا پلٹ ہو جائے۔ جوگی بابا اپنی داڑھی پر الٹا ہاتھ پھیر کر مسکراتے بولے، بچہ تو کیا چاہتا ہے؟ میں نے کہا، حضور ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، مجھ سے ہول سیل کا سودا کریں، کوئی ایسا وظیفہ بتائیے کہ جن میرے قبضے میں آ جائے، میری خواہشوں کو فہرست اتنی لمبی ہے کہ اسے کوئی جن ہی پورا کر سکتا ہے۔ جوگی بابا نے ایک لمحے کیلئے آنکھیں بند کیں نعرہ لگایا اور حکم دیا۔ بچہ ایک سو ایک روپیہ میری ہتھیلی پر رکھ دے۔ میں تجھے ایسا منتر بتاؤں گا کہ جن تیرا غلام ہو جائے گا، وہ تیری خواہشیں پوری کر دیگا۔ میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی، جوگی بابا! اسوقت تو اگر ہو سکے تو مجھے دس پندرہ روپے ادھار دے دیجیے، جن میرے قبضے میں آ گیا تو اس سے کچھ ایڈوانس لے کر آپکا قرض چکا دوں گا۔ جوگی بابا نے اپنے نوکر سے کہا، اس گستاخ کو ہمارے دفتر سے باہر نکال دو۔ نوکر میری طرف بڑھا ہی تھا کہ میں نے کہا، بھائی تجھے تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں خود ہی نو دو گیارہ ہو جاتا ہوں۔ دوست، تو خواہ مخواہ اس قسم کے جھوٹے جوگی باباؤں کے پیچھے وقت برباد کرتا پھرتا ہے۔ اگر اسکے پاس کوئی جن ون ہوتا تو یہ یہاں سو روپیہ فیس لگا کر دکانداری کیوں کر رہا ہوتا؟َ میں نے کہا: اے برادر خود کلاں میں قسمت کا مارا ہوں، غرض مند دیوانہ ہوں، دنیا میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہوں، چاہتا ہوں راتوں رات ارب پتی بن جائوں، اپنے لیے شاندار محل بنواؤں جسکے ہر کمرے میں وی سی آر ہو، ہر دروازے کے آگے ایک مرسٹڈیز کھری ہو، اپنے جیٹ طیارے میں سفر کرتا پھروں، لونڈیاں میرے آگے پیچھے پھر رہی ہوں۔
hrpls
جوگی بابا کے نوکر نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ بس بس تمہاری خواہشوں کے اتنے چینل ہیں کہ تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا لیکن مجھے تم سے ہمدردی بھی بہت ہے کیونکہ تم بالکل ہی تباہ حال ہو۔ پھر اس نے اپنی بھٹی ہوئی واسٹ میں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر مجھے دیا اور بولا، اس میں ایک منتر لکھا ہے اگر تم دریائے روای میں کمر تک ڈوب کر آدھی رات کو ایک ہزار مرتبہ اس منتر کو پڑھو گے تو جن حاضر ہو جائیگا۔ میں نے اس سے سوال کیا، تم نے یہ نسخہ اپنے اوپر کیوں نہیں آزمایا؟ نوکر آہ بھر کر بولا، بھائی کیا بتاؤں؟ یہ ہمارے خاندان کا صدری نسخہ ہے، ہم اپنے بزرگوں کی صدریوں سے نکالتے آئے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ ہمارے خاندان میں جب بھی کوئی جن کا منتر پڑھنے کیلئے دریا میں اترا، اسے سرسام ہو گیا اور وہ راہی ملک عدم ہوا۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا اسلیے اس نسخے کو آزماتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ تم ہی اپنا برا بھلا سوچ لو۔ میں نے نسخہ لے لیا اور کہا: جو ہو گا دیکھا جائیگا۔ جن نہیں تو جاتے جن کی لنگوٹی ہی سہی، میں آج ہی اس منتر کا جاپ کرتا ہوں۔ نوکر نے عاجزی سے کہا: بھائی اگر جن تمہارے قبضے میں آ جائے تو اس سے قسطوں پر مجھے کچھ رقم لے دینا۔ میں ایک ایک پائی واپس کر دونگا۔ اس رات میں دریائے راوی پر پہنچا، دیکھا کہ آس پاس کوئی نہیں ہے تو دریا میں اتر گیا
bottle in river
جہاں پانی کمر تک آیا میں نے منتر کا جاپ کرنا شروع کر دیا۔ دریا کے ٹھنڈے پانی سے میری ٹانگیں یخ ہو رہی تھیں لیکن راتوں رات دلت مند بننے کا شوق مجھے وہاں سے ہٹنے نہیں دے رہا تھا۔ جب میں ہزار مرتبہ منتر پڑھ چکا تو آنکھیں کھول کر دیا پر پھیلے اندھیرے میں دیکھا کہ ایک بوتل لہروں پر تیرتی ہوئی میری طرف آ رہی ہے۔ میں اسے اٹھا کر کنارے پر آ گیا وہاں میں دانتوں سے اسکا ڈھکن کھول دیا۔ شوں شوں شوں کی آوازیں بلند ہوئی اور بوتل میں سے ایک منحنی سا کالا بھجنگ عینک پوش جن بغل میں انگریزی اخبار دبائے عینک کے شیشے رومال سے پونچھتا باہر آیا اور بولا: ارے بھائی! ایک ہزار سال سے اس بوتل میں چین کی نیند سو رہا تھا۔ مجھے کیوں تکلیف دی تو نے؟ میں نے کہا، اے الف لیلیٰ کے جن! جن نے فوراً مجھے ٹوک دیا اور بولا، میں الف لیلیٰ کا جن نہیں ہوں، وہ الٰہ دین والا جن میرے ماموں جان کے چچا جان کا بھانجا تھا۔ اب بتا تو کیا چاہتا ہے؟ میں نے کہا، مجھے کہیں سے قارون کا خزانہ لا دے تا کہ میں ملک کا سب سے دولت مند شخص بن جاؤں۔ جن نے آنکھوں پر عینک لگائی اور ریت پر بیٹھتے ہوئے آہ بھر کر بولا، برخوردار، اگر میرے پاس قارون کا خزانہ ہوتا تو میں اس بوتل میں رہتا؟ کوئی آسان سے خواہش بیان کرو۔ میں نے کہا، اچھا تو اسوقت دو مرغ روسٹ، ایک کڑاہی تکہ اور بارہ روغنی نان حاضر کرو، جن پہلے ہنسا اور پھر رونے لگا میرے پوچھنے پر بولا: برخوردار ہنسا اسلیے تھا کہ تو کیا مانگ رہا ہے اور رویا اسلیے ہوں کہ میں خود کئی روز سے بھوکا ہوں۔ میں نے جنجھلا کر کہا: تم کیسے جن ہو کہ ذرا سا کھانا بھی نہیں لا سکتے، پہلے زمانے کے جن تو شہزادیاں اٹھا کر لے آیا کرتے تھے۔ جن نے روتے ہوئے کہا: بھائی! اب تک جتنی شہزادیاں اٹھا کر لایا تھا اب تک انکے مقدموں کی تاریخیں بھگت رہا ہوں۔ ان سب کے رشتے داروں نے مجھ پر اغوا کے کیس دائر کر رکھے ہیں۔ اب ایسا کر کہ کہیں سے مجھے نان چھولے لا کر کھلا دے۔ بڑی بھوک لگی ہے۔ میں نے طیش میں آتے ہوئے کہا: ارے میں نے تجھے حاضر کرنے کیلئے ٹھنڈے پانی میں کمر تک کھڑے ہو کر اتنا لمبا وظیفہ پڑھا اور تو حاضر ہونے کیبعد الٹا مجھ سے کھانا مانگ رہا ہے تو کیسا جن ہے؟ جن بولا: اچھا تو پھر پانچ روپے ادھار ہی دیدو۔ اب تو مجھے اس پر سخت غصہ آیا۔ یہ تو مجھ سے بھی زیادہ غریب اور فاقہ زدہ جن نکلا۔ میں جن کو مارنے ہی لگا تھا کہ اس نے ہاتھ باندھ لیے اور تو سے آپ پر آ گیا۔ میرے مالک، اصل بات یہ ہے کہ مجھ سے میرا نقش سلیمانی گم ہو گیا ہے تب سے میری ساری طاقت مجھ سے چھن گئی ہے اگر کہیں سے نقش سلیمانی مل گیا تو پھر دیکھیے میرے کام۔ ابھی تو میں شہر جا کر آپکے لیے کہیں نوکری کرتا ہوں کہ آپ بہرحال میرے مالک ہیں اور آپکی خدمت میرا فرض ہے۔ میں جن کو لے کر اپنی کوٹھڑی آ گیا جو روکھی سوکھی پڑی تھی اسے بھی کھلائی۔ دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ اچھا جن پلے پڑا ہے کہ مجھے دولت دلانے کی بجائے میری روٹیوں کا دشمن بن بیٹھا ہے۔ دوسرے روز جن میرے لیے نوکری کی تلاش میں چلنے لگا تو بولا۔ دعا کیجیے کہ مجھے میرا کھویا ہوا نقش سلیمانی مل جائے پھر آپکو وہ عیش کراؤں گا کہ آپکی سات پشتیں یاد کرینگیں۔ یہ کہہ کر جن چلا گیا۔ جن میرے پاس سے سیدھا ایک اخبار کے دفتر میں پہنچا وہاں ایڈیٹر صاحب سے ملا اور بولا۔ میں جن ہوں مجھے نوکری چاہیے۔ ایڈیٹر صاحب نے ناک کی پھننگ سے عینک ہٹاتے ہوئے کالے کلوٹے منحنی سے جن کو دیکھا اور بولے: میاں یہاں پہلے ہی بہت سے جن بے قابو ہو رہے ہیں۔ تمہارا یہاں کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اپنا راستہ ناپو۔ جن وہاں سے نکلتے ہی سڑک پر آ کر راستہ ناپنے لگا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ ارے یہ کیا کر رہے ہو؟َ کسی نے پوچھا، جن بولا۔ بڑے میاں نے راستہ ناپنے کو کہا تھا وہی کر رہا ہوں۔ لوگ کھل کھلا کر ہنس پڑے، جن بولا بھائیو میں جن ہوں مجھے یا تو کوئی نوکری دلا دو، نہیں تو میرا نقش سلیانی مجھے واپس کر دو۔ بچے بھی وہاں جمع ہو گئے تھے۔ انہوں نے جن کو پتھر مارنے شروع کر دیے جن دم دبا کر بھاگ نکلا۔
anarkali
کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتابوں کے اسٹال کے آگے کھڑا ہے۔ جن نے اسٹال کے مالک سے کہا۔ بھائی تمہارے پاس نقش سلیمانی ہو گا؟ اسٹال والے نے کہا: بھائی نقش سلیمانی تو نہیں ہے البتہ نقش فریادی کی ایک کاپی رہ گئی ہے وہ لے جاؤ۔ جن یہاں سے بھی چل دیا۔ انار کلی بازار میں آیا تو دیکھا کہ ایک آدمی آواز لگا کر سلیمانی نمک بیچ رہا ہے جن نے کہا: بھائی اگر تمہارے پاس سلیمانی نمک ہے تو نقش سلیمانی کا بھی کچھ اتاپتا معلوم ہو گا، مجھے اسکی تلاش ہے۔ سلیمانی نمک بیچنے والا کہنے لگا، تو کون ہے؟ جن بولا میں جن ہوں۔ نمک والے نے پولیس کے سپاہی کو بلوا لیا، جن سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ دور جا کر اس نے بڑی مشکل سے اپنے پاؤں سر سے الگ کیے اور کیا دیکھتا ہے کہ شہر کے پرانے قلعے کے دروازے پر کھڑا ہے۔ بادشاہوں کے قلعے کو دیکھ کر جن خوش ہوا کہ ہو سکتا ہے یہاں مجھے نقش سلیمانی مل جائے۔
shahi qila
قلعہ ویران تھا، بادشاہتیں ختم ہو چکی تھیں، اب آثار قدیمہ ہی باقی رہ گئے تھے، کچھ سیاح قلعہ کی سیر کرتے پھر رہے تھے۔ جن بھی ان میں شامل ہو گیا۔ ایک جگہ ایک تنگ و تاریک سرنگ نظر آئی۔ جن لوگوں کی نظریں بچا کر اس سرنگ میں داخل ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک نحیف و نزار کمزور سا شخص کہ جس کے سر پر بکرے کے سینگوں والا پرانا تاج ہے، پیٹ پر ہاتھ رکھے ہائے ہائے کر رہا ہے۔ جن نے پوچھا، اے کمزور صورت انسان تو کون ہے اور تجھے کیا تکلیف ہے؟ اس شخص نے اپنی پھٹی پرانی شاہی صدری میں سے ایک کارڈ نکال کر جن کو دیا اور کہا، اے اجنبی میرا نام چنگیز خان آف بغداد فیم ہے۔ میں نے کبھی بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ جن نے فرش پر پڑی ہوئی دو اینٹیں اٹھائیں اور بجاتے ہوئے بولا: اینٹ سے اینٹ تو میں بھی بجا سکتا ہوں۔ ریٹائرڈ چنگیز خان بولا: آہ بغداد کی اینٹیں ہی کچھ اور تھیں۔ جن نے پوچھا، مسٹر چنگیز خان ریٹائرڈ ، آپ یہاں کب سے ہیں؟ چنگیز خان نے دوسری بار آہ بھر کر بولا۔ میری فوجیں شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر چلی گئیں اور مجھے اس قلعے کے تہہ خانے میں چھوڑ گئیں۔ تب سے یہاں بند ہوں اور سیاح لوگ آکر مجھے دیکھتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں۔ جن بولا، آپ نے پیٹ کیوں پکڑ رکھا ہے؟ چنگیز خان ریٹائرڈ تیسری آہ بھر کر بولا: بھائی مجھے گیس کی ٹربل ہے، بھاٹی دروازے کے نان چھولے کھا کھا کر میرے پیٹ میں گیس پیدا ہو گئی ہے۔ جن نے مشورہ دیا: مسٹر چنگیز خان آپ ایسا کریں کہ یا تو اس گیس پر میٹر لگا لیں اور یا اسے سوئی گیس والوں کے ہاں بیچ ڈالیں۔ کیونکہ مجھے شبہ ہے کہ آپکے اندر سوئی گیس نکلنے لگی ہے۔ چنگیز خان خوش ہو کر بولا۔ یہ تم نے بڑا عمدہ نسخہ بتایا، میں آج ہی سوئی گیس نادرن والوں کو خط لکھتا ہوں، اب یہ بتاؤ کہ تم کون اور اور یہاں کس غرض سے آئے ہو۔ جن نے اپنا تعارف کرایا تو چنگیز خان چیخ مار کر بولا: الٰہ دین کے جن تو ہی میری مدد کر سکتا ہے۔ مجھے میرے شاہی محل میں لے چل۔ جن نے ہاتھ باندھ لیے اور بولا: حضور اسوقت تو میں خود آپ سے کچھ ادھار مانگنے آیا ہوں۔ چنگیز خان نے کہا: میرا وزٹنگ کارڈ تم نے شاید پوری طرح نہیں پڑھا۔ اس میں میں نے صاف صاف لفظوں میں لکھ دیا ہے ادھار مانگ کر چنگیز خان کو شرمندہ نہ کریں۔ جن نے کہا تو پھر مجھے اتنا بتا دیجیے کہ میرا کھویا نقش سلیمانی مجھے کہاں ملیگا؟ چنگیز خان ٹہلتے ٹہلتے رک گیا، جن نے دیکھا کہ چنگیز خان کے ایک پاؤں میں ہوائی چپل اور دوسرے پیر میں پرانا جوتا تھا۔ چنگیز خان نے کونے میں پڑا اپنا پھٹا پرانا بریف کیس کھولا اور اس میں سے ایک نقش نکال کر جن کیطرف بڑھایا، میرے دوست: یہ لو اپنی امانت میں نے سینکڑوں برسوں سے اسے سنبھال کر رکھا ہے۔ جن نے نقش سلیمانی دیکھا تو عش عش کرتے ہوئے غش کھاتے کھاتے بچا، اس نے نقش سلیمانی صدری کی جیب میں رکھا ہی تھا کہ اسکی ساری طاقت واپس آ گئی جن نے ریٹائرڈ چنگیز خان کا شکریہ ادا کیا اور غائب ہو کر قلعے کی سرنگ سے باہر آیا، وہ بڑا خوش تھا جونہی وہ قلعے کے دروازے سے باہر آیا، اسکی ساری طاقت ختم ہو گئی اور وہ اڑتے اڑتے حضوری باغ کے درختوں میں جا گرا اور وہاں سے نیچے زمین پر آن پڑا۔ جن کی گھگی بندھ گئی، سمجھ گیا کہ وہ جس زمانے میں آ گیا ہے وہاں نقش سلیمانی بھی بے اثر ہے۔ اٹھ کر واپس چنگیز خان کی سرنگ میں گیا تو دیکھا کہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا اور کونوں میں جالے لٹک رہے تھے۔ مایوس ہو کر قلعے سے باہر آ گیا۔ بھوک سے جان نکلی جا رہی تھی۔ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر کھانے کا آرڈر دیدیا۔ ڈٹ کر کھانا کھایا، بل دینے کا وقت آیا تو جن نے بیرے کو بتایا کہ وہ الف لیلیٰ کا جن ہے۔ بیروں نے اسے پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چلا چلا کر کہتا رہا، میں الف لیلیٰ کا جن ہوں، مجھے نہ مارو۔ بیرے اسے مارتے بھی جاتے تھے اور کہتے بھی جاتے تھے ابھی نکالتے ہیں تیرا جن۔ جن کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اب انہوں نے اسکا جن نکالنا شروع کر دیا۔ ساری رات وہ چیختا چلاتا رہا اور یہی پکارتا رہا۔ مجھے بغداد واپس جانے دو۔ مجھے میری بوتل میں بند کردو، مگر وہاں اسکی فریاد کون سنتا تھا۔ جن کو اگلے روز عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اسے ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ قید میں جن کا برا حال ہو گیا، وہ ہر کسی سے کہتا کہ میں جن ہوں، مجھے یہاں سے نکالو۔ قیدی پہلے تو اسکی مرمت کرتے رہے پھر اس سے مشقت لینے لگے۔ جب جن جیل سے رہا ہو کر میرے پاس آیا تو پہچانا نہیں جاتا تھا۔ ہڈیاں نکل آئی تھیں، چہرہ چھوٹی بکری کیطرح کا ہو گیا تھا، مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔ میں نے کہا جن بھائی کیا کوئی ایسا منتر ہے کہ جس کو پڑھنے سے تو واپس اپنی دنیا میں چلا جائے؟ جن نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا: بھائی ایسا کوئی منتر نہیں ہے۔ اب تو خدا جانے یہ لوگ میرا کیا حشر کرینگے؟
carla’s tree
بیچارہ جن آج کل دریائے راوی کے کنارے ایک درخت کے نیچے اس حال میں بیٹھا ہے کہ سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے۔ اپنی پرانی بوتل اس نے سینے سے لگا رکھی ہے جو کوئی وہاں سے گزرتا ہے بوتل اسے دکھا کر گڑگڑا کر کہتا ہے۔ بھائی مجھے اس بوتل میں بند کر دو، مجھے اس بوتل میں بند کر دو، لوگ اس پر ہنستے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ میں نے ایک اسکیم سوچ رکھی ہے جب یہ جن مر جائیگا تو میں وہیں اسکی قبر بنا کر اس پر مجاور بن کر بیٹھ جاؤں گا اور اسے جن بابا کی قبر مشہور کر کے کم از کم پانچ دس ہزار روپے ماہوار تو ضرور کما لیا کروں گا۔ زندہ جن تو میرے کام نہیں آیا لیکن مردہ جن میری قسمت ضرور پلٹ دیگا۔