بوڑھے والدین اللہ تعالیٰ کی رحمت

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

قرآن کریم میں ارشاد ہوا ”اور تمھارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں توان کواُف تک نہ کہنا اورنہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجزونیازسے ان کے آگے جھکے رہواور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پرودگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں(شفقت سے) پرورش کیا توبھی ان پررحمت فرما(سورئہ بنی اسرائیل) والدین کو جب اُمید ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اولاد جیسی نعمت سے نوازنے والا ہے تو وہ اپنی جائزو ناجائز خواہشات کو ترک کرکے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اپنی اولاد کی بہتر پرورش کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ خالق کائنات کے بعد انسان پروالدین کا احسان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

والدین اولاد کی پیدائش سے پرورش تک بڑی مشکلات سے گزرتے ہیں۔ایسی مشکلات جن کا اس وقت اولاد تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی شکرگزاری کے ساتھ ساتھ والدین کی شکرگزاری کابھی حکم دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی”والدین جتنی مشکلات اپنی اولاد کے لیے اُٹھاتے ہیں۔ اس کے صلے میں انسان کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اپنے والدین کی خدمت کرے اس طرح انسان صرف والدین کی خدمت ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے خالق (اللہ تعالیٰ) اور اس کے رسول سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے احکامات پر عمل بھی کرتا ہے جو یقینا انسان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کا سبب ہے۔

ارشاد نبوی ہے کہ ”وہ شخص ذلیل ہوا،ذلیل ہوا جس نے والدین کا بڑھاپا پایا اور دونوں( یا ان میں سے ایک جوبھی زندہ ہو)کی خدمت کرکے جنت میں نہ پہنچ جائے ۔کتنا خوبصورت فرمان ہے میرے اورآپ کے حقیقی رہنماء کا اور کس قدر افضل اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے والدین کی خدمت کرنا۔ اگر دیکھا جائے تو انسان اپنے والدین کے بے پناہ احسانات کابدلہ ہی نہیں چکا سکتا چاہے ساری زندگی ان کی خدمت میں گزار دے اور اس پر جنت کے ا نعام کا وعدہ ، کیا یہ ایک اور احسان نہیں میرے اور آپ کے خالق کا؟ کتنے بدقسمت ہیں ہم لوگ جو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے کی بجائے ان کو گھر سے نکالنے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔جی ہاں قارئین محتر م ہمارے منتخب نمائیدے پاکستان میں مغربی طرز تہذیب کے مطابق بوڑھے افراد کے رہنے کے لیے علیحدہ انتظامات کرنے کی قانون سازی کرنے جارہے ہیں ۔یعنی ہمیں جنت سے بے دخل کرنے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے ۔

سینیٹ میں بزرگ شہریوں کے لیے ملک بھر میں اولڈ ہومز قائم کرنے کے لیے ضروری قانون سازی اور بزرگوں کے کے احترام اوران کی دیکھ بھال کے لیے آگاہی مہم کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کے حوالے سے قررارداد کو متفقہ طورپرمنظور کر لیا گیا ہے جبکہ حکومت و اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ز نے مطالبہ کیا ہے کہ بزرگ شہریوں کو ماہانہ بنیادوں پروظائف دئے جائیں اور پاکستان کوسیکورٹی کی بجائے فلاحی ریاست بنایا جائے ،ابتدائی طور پرملک کے تمام بڑے شہروں میں اولد ہومزتعمیر کئے جائیں ،آئین کے تحت بزرگ شہریوں کی فلاح وبہبوداور شیلٹر ہاوسز کا قیام ریاست کی ذمہ داری ہے ،بزرگوں کی خدمت ہمارا دینی ،اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے اس سلسلے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت فاونڈیشن بنا کر بھی کام کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

PPP

PPP

17دسمبر 2012کو پیپلزپارٹی کے رکن سینیٹر کریم خواجہ نے قراداد پیش کی کہ حکومت بزرگ شہریوں کے لیے شیلٹر ہائوسز قائم کرے ۔اس قرارداد پر بحث کرتے ہوئے تمام سینیٹر نے اس مسئلے کو اہم قرار دیا اور ضروری قانون سازی کرنے پر زور دیا۔ایوان میں موجود تمام ارکین نے بزرگوں کی بات کی لیکن اللہ بھلا کرئے سینیٹر الیاس بلور کا جنہوں نے بزرگوں کی بجائے والدین کا لفظ استعما ل کیا اور کہا کہ یورپ کے کلچر سے پاکستان کا موازنہ نہ کیا جائے،انہوں نے والدین کی خدمت نہ کرنے والوں کولعنتی قراردیا۔راقم کو بھی یہی کہنا ہے میرے وطن میں مغربی تہذیت رائج نہ کی جائے ۔قارئین محترم ایک لمحے کے لیے آپ بھی سوچیں والدین اپنے بچوں کے لیے کیا نہیں کرتے ؟ اولاد کے پیدا ہونے پر والدین اپنے سارے خواب توڑ کر اپنے بچے کی بہتر پرورش، بہتر تعلیم وتربیت ،بہتر مستقبل کے بارے میں فکر مند رہنے لگتے ہیں ۔کیا بزرگ شہری پاکستا ن کا سب سے بڑامسئلہ ہیں ؟کیا بزرگ شہری دہشتگرد ہیں جو ان کی وجہ سے پاکستان فلاحی ریاست نہیں بن پا رہاْ؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیاوالدین بوڑھے ہوجائیں توان کوگھر سے نکال دینا چاہے؟ ایسی قانون سازی ہرگزنہ کی جائے جس کو جواز بنا کر لوگ بوڑھے والدین کو گھرسے نکال دیں ۔

اگر وقت ملے تو میرے پیارے حکمران عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ کیا بڑھتی ہوئی قتل غارت کو روکنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے ؟کیا عوام کو تعلیم اور صحت و صفائی کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے ؟کیابجلی کی لوڈشیڈنگ کو ختم کرناحکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟َ کیا سی این جی کی فراہمی کو آسان بنانا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟کیا عوام کو باعزت روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔

تحریر : امتیاز علی شاکر