بچے والدین سے وقت مانگتے ہیں جو والدین کے لیے دینا آج کے جدید دور میں مشکل ترین کام ہے،خاص کر والد کے لیے ہمارے ہاں مرد حضرات کام کے سلسلہ میں صبح سویرے ہی گھر سے نکل جاتے ہیں اور رات کو دیر سے گھر لوٹتے ہیں،والد کی کئی کئی دن بچوں کے ساتھ جاگتے میں ملاقات ہی نہیں ہو پاتی صبح سویرے بچے سو رہے ہوتے ہیں اور رات واپسی پر بھی سوچکے ہوتے ہیں۔
فکر روزگار نے ہمیں اپنے بچوں سے اس قدر دور کر دیا ہے کہ ہم ان کی پرورش کے لیے انہیں اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنا کہ ان کو درکار ہوتا ہے۔ پانچ سے چھ سال کی عمرکے بچوں کے لیے گھر ہی پہلا مدرسہ ہوتا ہے جہاں بچے والدین سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
چلنا ،بولنا ،اٹھنے ،بیٹھنے کا طریقہ اور ہر طرح کا رویہ اختیار کرنا بچے اپنے والدین سے سیکھتے ہیں۔والدین کی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ذمہ دار رئویہ اختیار کریں گھر کے پر سکون ماحول میں پرورش پائیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے پرورش پانے والے تمام بچے ایک جیسا مزاج اختیار کریں۔
والدین کے لیے ایسی صورتحال یقینا باعث اطمینان ہوتی ہے کہ اگر ان کے بچے رقابت کی بجائے مل جل کر رہنا پسند کریں۔تاہم یہاں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے کیونکہ بچوں میں اعتماد کا رشتہ قائم رکھنا یقینا مشکل ہے لیکن ابتدائی عمر یعنی پانچ سے چھ سال کی عمر سے ہی بچوں کی اخلاقی ذہنی اور تعلیمی تربیت کے ساتھ ساتھ ذمہ دار رویہ اختیار کرنے کی تربیت بھی دی جائے تو کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔
Children
یہ بہترین اور نہایت اہم وقت ہوتاہے۔کیونکہ پانچ چھ سال کی عمر کے بچے زیادہ تر گھر میں والدین کے پاس ہی رہتے ہیں اس لیے اس عر صے میں بچوں کی تربیت کی زمہ داری بھی ساری کی ساری والدین پر ہی ہوتی ہے ۔بد قسمتی سے والدین جب بچوں کے سامنے مثبت اور یکساں رویہ نہیں رکھتے تب بچوں کو مثبت اور یکساں رویہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یکساں رویہ اختیار کرنا شائد ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کوایک جیسا عقل و شعور عطا نہیں کیا ہوتا ،تاہم مثبت رویہ اختیار کرنا ممکن ہے۔
ہم لوگ جھوٹ کی وکالت کرنا اپنی عادت بنا چکے ہیں، ہم بچوں کے سامنے سارا دن جھوٹ بولتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایک اور بیماری بہت عام ہے کہ ہم چھوٹی عمر کے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ سکول و مدرسے شروع ہوتا ہے۔یہ بڑی بیماری بھی ہماری ہاں کثرت سے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ہم بچوں کو بہلانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔
یعنی بچہ کسی وجہ رو پڑے تو اسے چپ کروانے کے لیے مائیں کہتی ہیں ،وہ دیکھوں بلی آئی،وہ دیکھو چھپکلی آئی وغیرہ وغیرہ جب کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔دیہاتوں میں زیادہ مائیں یہ بھی کہتی ہیں چپ کرجائو نہیں تو باوُ آجائے گا،یعنی ایسی انجانی چیزکا نام جسے وہ خود بھی نہیں جانتی ،جس کا کہیں کوئی وجود تک نہیں ہوتا۔
مائیں اس بات سے بے خبر ہوتی ہیں کہ یہ ساری چیزیں بچوں کے شعور میں بیٹھ ان کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں اور سکول و مدرسے میں پڑھانے والے اساتذہ بھی بہت کم بچوں کے شعور سے ان چیزوں کو جُدا کرپاتے ہیں۔راقم کے خیال میں پانچ سے چھ سال کی عمر کے بچوں کی تربیت اگر سچ اور مثبت حکمت عملی کے ذریعے کی جائے تو اساتذہ بھی بچوں کو بہتر انداز میں تعلیم دے سکتے ہیں۔
چھوٹی عمر کے بچے کو والدین کہتے ہیں چپ کر جائو نہیں تو جن یا باوُ آجائے گا تو اکثر بچے اس بات سے خوفزدہ رہنے لگتے اور اپنے ہی گھر میں ڈرتے رہتے ہیں ،اگر رات کے وقت بجلی بند ہونے کی وجہ سے اندھرا ہو جائے تو بچے بری طرح ڈرکر زور زور سے رونے لگتے ہیں ،اس ڈر کو ہم لاکھ کوشش کے باوجود بھی بچوں کے دل سے نہیں نکال سکتے۔غور کریں ہماری چھوٹی سی غلطی ہمارے بچوں کو ساری زندگی کے لیے خوفزدہ کر دیتی ہے۔ایسا جھوٹ بول کر روتے ہوئے بچوں کو چپ کروانے سے بہتر نہیں کہ انہیں تھوڑی دیر کے لیے روتا چھوڑ دیا جائے۔