وقت کس تیزی سے گزرتا ہے ابھی چھوٹی عید گئی تھی کہ اب عید قرباں آ گئی۔ یہ بقرہ عید بھی کہلاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں بقرہ کو بکرا بنا کر اسے ”بکرا عید” بنا دیا گیا ہے۔ شاید یہ قربانی کیلئے بکرے ذبخ کرنے کا شاخسانہ ہے۔ اب پھر وہی موسم ہے، عید قرباں آ رہی ہے۔ وہی دستور بھی ہے، بکرے بھی ہیں، کچھ تگڑے ہیں، کچھ مسکین ہیں لیکن مہنگائی نے ایسی مَت ماری ہے کہ کسی میں وہ ہمت و سکت ہی نہیں کہ صرف گھنگرو ہی خرید لیں۔ کون ہے جو آج کی اس مہنگائی میں بقرہ عید کی آمد پر خود بکرا نہیں بنتا۔
اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا جانور سستا ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے اچھا، پیارا اور خوبصورت ہو جبکہ کچھ لوگ فراخدلی دکھاتے ہوئے اپنی قوتِ خرید سے زیادہ رقم پاس رکھتے ہیں تاکہ اس مذہبی فریضہ سے بہ حسن و خوبی عہدہ برآء ہوں۔ قربانی کے جانوروں کی منڈیاں بھی اب جدید رنگ میں رنگتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مختلف اقسام کے جانور پھولوں اور ہاروں سے سجائے ہوئے، ہر طرف گھنگھروئوں کی چھم چھم جبکہ اکثر جگہوں پر ان کی خوبصورتی کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے منڈی مویشیاں نہیں بلکہ جانوروں کا ”بازارِ حسن” لگ گیا ہے۔ پہلے صرف دیہاتوں سے لوگ اپنے جانور شہر لا کر بیچتے تھے مگر اب سرمایہ کاروں اور مارکیٹنگ کے لوگوں کی آمد سے منڈیوں میں صحت مند مقابلوں کی فضاء قائم ہو گئی ہے۔ مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق اب جانور فروخت کرنے والے ساتھ خوبیاں بھی گنواتے ہیں۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ کریں کہ بیوپاری حضرات گاہکوں کو متاثر کرنے کیلئے بکروں کی خوبیاں کیسے بیان کرتے ہیں
Fashion Bakra
فیشنی بکرا
یہ ہے جی لیڈیز فیشن سے متاثر فیشنی بکرا۔ اس کو فیشن کرنے اور نئے نئے انداز اپنانے کا چسکا ہے۔ ذرا اس کا سنگھار تو دیکھیں، ماشاء اللہ کتنا سندر لگ رہا ہے۔ مادھوری، ریما، ایشوریا رائے سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں بلکہ وہ تو اس کے مقابلے میں پلاسٹک کی لگتی ہیں البتہ مِس ورلڈ بھی اگر اسے دیکھ لے تو یقینا شرما جائے۔ اگر بیگم صاحبہ کو اپنے حسن پر بہت ناز ہے تو اسے خرید کر گھر لے جائیں، وہ جیلس نہ ہوئیں تو پھر کہنا۔
شرارتی بکرا یہ بکرا کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کی شرارتیں ہی ہیں جو دل میں اُتر جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس بکرے کی خوبیاں کیا بیان کریں جی یہ خود ہی اپنی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ لے کر دیکھیں پتا چل جائے گا کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی معصوم شکل پر نہ جانا، اندر سے یہ بہت شرارتی ہے۔ ویسے صاحب! برا نہ منانا شکل تو آپ کی بھی اس بکرے سے ملتی جلتی ہے۔ اگر دونوں کو ایک ساتھ باندھ دیا جائے تو فرق کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ان میں سے بکرا کونسا ہے۔
انگریز بکرا یہ جناب صرف شکل سے ہی گورا نہیں بلکہ اندر سے بھی گورا مطلب انگریز ہے۔ اس بکرے کی قیمت تیس ہزار روپے ہے اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ یہ انگریزی بولتا ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ اپریل کے بعد کونسا مہینہ آتا ہے تو یہ فر فر انگریزی میں جواب دیتا ہے ۔۔۔MAY۔۔۔ لیکن چونکہ یہ خاندانی ڈھیٹ ہے، اس لئے اس کی انگریزی سننے کیلئے زور سے اس کے کان مروڑنے پڑتے ہیں۔ آج کل کچھ پریشان سا ہے لیکن آپ کو بالکل بھی پریشان نہیں کرے گا۔ چائنہ بکرا لو جی پہلی بار انتہائی سستا بکرا بھی مارکیٹ میں آ چکا ہے اور جلد ہی ان کی بڑی کھیپ ہماری مارکیٹوں کا رُخ کرنے والی ہے۔ اس کا ساتواں حصہ پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر بُک کرائیں یا پھر مکمل بکرا پوری فیملی کیلئے صرف پانچ سو روپے میں خرید سکتے ہیں۔ مگر خیال رہے کہ یہ چائنہ کا بکرا ہے اگر آپ کے گھر جا کر بھونکنا شروع ہو گیا تو میں ذمہ دار نہیں کیونکہ چائنہ کے مال کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔
جیکی چن بکرا یہ مارشل آرٹ فلموں کے شہنشاہ جیکی چن کی طرح پھرتیلا ہے، اسی وجہ سے اس کا نام بھی ”جیکی چن ” پڑ گیا ہے۔ اس بکرے کی لڑائی کی مہارت کے تو بڑے بڑے پہلوان بکرے بھی مداح ہیں۔ یہ مخالف کو منٹوں میں چِت کر دیتا ہے جبکہ اس کے دونوں بھائی بروسلی اور جیٹلی کل ہی فروخت ہو چکے ہیں۔ قربان جائوں اس کی ادائوں پر مجھے لگتا ہے یہ ذبخ ہونے کے دوران بھی کہیں پھرتی سے اُٹھ نہ کھڑا ہو۔
کتا بکرا یہ نہ ہی بھونکتا ہے اور نہ ہی کتے کی نسل سے ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک عجیب سی داستان ہے۔ اصل میں پہلے اس بکرے کا مالک ایک چرسی تھا، ایک دن اُس نے دوستوں کی دعوت کا پروگرام بنایا اور اپنے ہی گھر سے رات کو بکرا چوری کرکے دعوت کر ڈالی۔ صبح جب گھر گیا تو بکرا گھر میں ہی موجود تھا۔ بیوی سے پوچھا بکرا کہاں سے آیا؟ بیوی بولی! بکرے کو گولی مارو کسی نے رات کو ہمارا کتا چرا لیا ہے۔ بس اُس دن سے اس کا نام ”کتا بکرا” پڑ گیا ہے۔
قیمتی بکرا اس بکرے کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے۔ آپ قیمت سن کر ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ آیا اس میں ایسی کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ خوبیوں کو گولی ماریں جناب، اصل میں بات یہ ہے کہ کل رات اس کی قیمت صرف دس ہزار روپے تھی مگر شام سے یہ میرے ہاتھ میں پکڑے چالیس ہزار روپے نگل گیا ہے۔ یہ کمزور ہے مانتا ہوں، یقینا آپ مجھے پاگل سمجھیں گے کہ کمزور بکرے کو قیمتی کیوں ظاہر کر رہا ہوں لیکن بھائی صاحب پھر بھی قیمتی ہے کیوں کہ میری قیمت بھی تو اس نے دینی ہے۔ ڈھیٹ بکرا یہ ہے نہایت ہی خوبصورت اور پیار کے قابل بکرا جسے دیکھتے ہی اس پر پیار آ جاتا ہے مگر انتہائی درجے کا ڈھیٹ ہے۔اب سمجھ نہیں آتی کہ اسے اس کی سادگی سمجھوں یا ڈھیٹ پن کیوں کہ اگر اسے کوئی کہتا ہے کہ آ جائو میاں دھوپ میں کیوں کھڑے ہو تو یہ اور آگے بڑھ کر سورج کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر اسے کہا جائے کہ بارش تیز ہے چھت کے نیچے آ جائو تو یہ چھت کے نیچے آنے کی بجائے آسمان کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر چھینکیں اور بخار میں ساری رات گزار دیتا ہے۔
سیاسی بکرے یہ ایسے سیاسی بکرے ہیں جو ہر بار قوم کو قربانی کا بکرا بنا کر خود بچ نکلتے ہیںلیکن اس بار ہم انہیں بھی بکرا منڈی تک پہنچا نے میں کامیاب ہو گئے ہیں کیونکہ پوری قوم کی یہ آواز ہے کہ اب کی بار ان سیاسی بکروں کو ہی قربانی کا بکرا بننا چاہئے اور پھر ان تنومند بکروں کا گوشت پوری قوم میں منصفانہ تقسیم ہو۔ قصائی تیار ہیں چھریاں تیز کی جا رہی ہیں لیکن خدا جانے ان بکروں کی قربانی قبول بھی ہوگی یا نہیں۔
عوامی بکرے یہ ایسے معصوم عوامی بکرے ہیں جو ہمیشہ قربان ہوتے رہتے ہیں۔ روزانہ مذبحہ خانوں میں یہ بکرے چھری کے نیچے ہوتے ہیں ۔ جبکہ بسا اوقات حکمرانوں کے بھی کام آتے ہیں اور ان کا جب جی چاہتا ہے کسی ایک یا تمام بکروں کو قربان کرکے اپنا صدقہ اُتار لیتے ہیں۔اب تو وہ اپنی بولیوں میں بھی ان بکروں کو قربانی کیلئے تیار رہنے کا حکم صادر فرماتے رہتے ہیں اور یہ ہر وقت قربانی کا بکرا بننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔