پاکستان اور بھارت کے اختلافات کی وجہ سے دونوں ممالک میں جانے والے عام لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔کوئی بھی پاکستانی جب بھارت جاتا ہے اسے خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔یہی حال پاکستان میں ہے۔ مگر ایک فرق واضع ہے جو پوری دنیا اکثر ٹی وی پر دیکھتے ہیں ۔جب بھی قیدی رہا کیئے جاتے ہیں ۔پاکستان سے رہا کئے جانے والے بھارتی قیدی صحت مند ہوتے ہیں۔مگر بھارت کی طرف سے رہا کیئے جانے والے پاکستانی قیدیوں کی اکثریت ذہنی ہا جسمانی معذور ہوتے ہیں۔جو بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔بھارت میں قید یوں کی بڑی تعداد انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں مچھیرے جو غلطی سے سمندری حدود کی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں یا فلمی اداکاروں سے ملنے کے شوقین جو زیادہ تر ان پڑھ ہوتے ہیں ویزے کی معیاد گزرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیئے جاتے ہیں۔
ان میںچند ایسے بھی تھے جنہوں نے دوستوں سے ملکر بغیر ویزے کے بارڈر پار کیا۔ اداکاروں سے یو نہ مل سکے تشدد اور طویل قید انکا مقدر بن گئی۔غریب گھرانوں سے تعلق کی وجہ سے پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کے بڑوں تک انکی رسائی ممکن نہ تھی ۔آج تک بھارت میں قید پاکستانیوں کی صحیح تعداد بھی کسی کو معلوم نہیں۔بھارتی سپریم کورٹ میں یہ کیس جموں کشمیر میں پینتھر پارٹی کے سربراہ پرفیسر بھیم سنگھ نے دائر کیا تھا۔بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا ہے کہ وہ تمام پاکستانی قیدی جنہوں نے اپنی سزا مکمل کر لی ہے انہیں ان کے وطن بھیجنے کے جلد انتظام کیے جائیں۔اس میں کئی وہ پاکستانی قیدی بھی شامل ہیں جو ذہنی طور پر معذور ہیں۔سپریم کورٹ نے یہ احکامات ان اکیس قیدیوں کے مقدمے کی سماعت دوران دیے جن میں سولہ ذہنی طور پر معذور ہیں اور پانچ قوت سماعت سے محروم ہوچکے ہیں۔
عدالت نے حکومت سے کہا کہ وہ آئندہ تین ہفتوں میں اس بات کا جواب دے کہ وہ ان قیدیوں کی ان کے وطن کی واپسی کے لیے کیا کر رہی ہے۔عدالت نے کہا ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیٹینشن سینٹرز میں ان قیدیوں کو بہتر سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں لیکن انہیں واپس کیوں نہیں بھیجا جا رہا ہے۔ آخر پریشانی کیا ہے؟ ایسی حراستیں ہمیں تکلیف دیتی ہیں۔عدالت نے مرکزی حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا ایسے کیسز کو سب سے زیادہ ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ وہ ذہنی طور پر معذور، بہرے اور گونگے ہیں۔ وہ اپنی سزا پوری کر چکے ہیں۔ انہیں پھر بھی جیل میںرکھا گیاہے لیکن ایساغیر معینہ مدت کے لیے تو نہیں کیا جا سکتا۔
مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ایسے افراد کی پوری طرح شناخت کے بغیر انہیں واپس نہیں بھیجا سکتا۔ عدالت نے کہاکہ آپ ایسا آئندہ چھ ماہ یا ایک برس میں بھی کیسے کر پائیں گے۔ یہ مشکل یونہی جاری رہے گی۔ آپ ہمیں یہ ضرور بتائیں کہ اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔’اس سلسلے میں مفاد عامہ کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب بھی دو ممالک کے اعلی حکام میں ملاقات ہو تو ایسے معاملات پر ترجیحی بنیادوں پر بات چیت ہونی چاہیے۔حالیہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بینچ نے کہا ایسے معاملات کو اعلی سطح پر اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے جب سربرہان مملکت ملاقات کر رہے ہوں؟۔انہوں نے عدالت کو ایسے قیدیوں کی تصاویر پیش کیں اور کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ یہ تصاویر پاکستانی حکومت کو مہیا کرے تاکہ انہیں پاکستانی اخبارات میں شائع کیا جائے اور ان افراد کی شناخت ہو سکے ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک محترم جج مارکنڈے کٹجو نے بھارتی وزیراعظم کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی حیثیت نہیں بلکہ انسان کے طور پر اپیل کرتے ہیں کہ ایک معمر پاکستانی شہری جو اجمیر کی جیل میں قید ہیںانہیں انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔
جسٹس مارکنڈے نے خلیل چشتی کے متعلق تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ پاکستان کے نامور یورولوجسٹ ہیں اور اب جبکہ عمر اسّی برس کے قریب ہے انہیں رہا کر دیا جائے تاکہ وہ زندگی کے آخری ایّام اپنے کراچی کے مکان میں گزار سکیں۔خط میں لکھا ۔یہ بات ہمارے ملک کے لیے غیر سائشتگی کا سبب ہوگی اگر وہ جیل میں ہی انتقال کرگئے۔انہوں نے پروفیسر خلیل کے مقدمہ محتصرا تذکرہ کرکے صورت حال واضح کرنے کی کوشش کی ہ اور لکھا ۔چونکہ عدالتی کارروائی کا معاملہ ہے اس لیے میں اس کیس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا لیکن عدالتی چارہ جوئی کے علاوہ انتظامی اختیارات کے تحت صدر مملکت اور ریاستی گورنر کو معاف کرنے کا اختیار ہے۔ایک طویل خط میں جسٹس مارکنڈے کٹجو نے پاکستانی پروفیسر کو رہا کرنے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور بعض مثالیں دیکر سمجھایا کہ عدالتی کارروائی کے دوران بھی ملزم کو معاف کیا جا سکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ڈاکر چشتی کے پاس اب زندہ رہنے کے لیے بہت برس نہیں ہیں اس لیے ان کو رہا کردیناچاہیے۔ اگر معافی دی گئی تو اس سے بھارت کا ہی وقار بلند ہوگا۔انہوں آخر میں لکھا کہ اسی طرح کی صورت حال میں پاکستان کے صدر نے گوپال داس کو معاف کر دیا تھا۔ڈاکٹر خلیل پاکستانی شہری ہیں اور 1992 میں وہ اپنے بھائی اور والدہ سے ملنے کے لیے اجمیر آئے ہوئے تھے۔
اجمیر میں ان کے بھائی کی رہائش گاہ پر خاندان کے کچھ لوگوں میں لڑائی ہوگئی۔لڑائی کے دوران کسی نے گولی چلا دی جس سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ چونکہ اس وقت موقع پر ڈاکٹر خلیل بھی موجود تھے اس لیے ایف آئی آر میں ان کا نام بھی درج کر لیاگیا۔مقدمے کے بعد انہیں ضمانت پر رہائی مل گئی تھی لیکن پاکستانی شہری ہونے کے سبب ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیاگیا تھا اور فیصلہ آنے تک انہیں انیس برس تک ہر پندرہ دن بعد تھانے میں حاضری دینی پڑتی تھی۔معمر پروفیسر انتہائی بیمار حالت میں ہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق جنوری میں گرفتاری کے وقت انہیں دو آدمیوں کی مدد سے جیل لیجایا گیا تھا۔
پروفیسر خلیل نے کراچی یونیورسٹی سے مائکروبائیولوجی میں ایم ایس سی کیا ۔اور اس کے بعد برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی سے وائرولوجی میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے کراچی کے علاوہ ایران، سعودی عرب اور نائجیریا میں بھی کئی برس درس و تدریس کا کام کیا اور اعلی عہدوں پر فائز رہے۔بھارتی ریاست راجستھان کی اجمیر سینٹرل جیل میں قید کییگئے بزرگ پاکستانی پروفیسر خلیل چشتی بدھ کے روز جیل سے باہر آگئے ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کے روز ان کی ضمانت منظور کی تھی لیکن رہائی کے لیے قانونی کارروائی کے بعد انہیں بدھ کو رہا کیا گیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔اس فیصلے سے جہاں عدلیہ کا وقار بلند ہوا وہاں سال ہا سال سے قید پاکستانیوں کو بھی رہائی نصیب ہوئی۔بھارتی سپریم کورٹ کے محترم جج مارکنڈے کٹجو نے ڈاکٹرخلیل چشتی کے حوالے سے انسان دوست ہونے کا ثبوت دیا۔پاکستان اور بھارت کی سپریم کورٹس سے بھی گزارش ہے کہ اس حوالے سے اگر از حود نوٹس لیا جائے تو کوئی قیدی سزا مکمل ہونے کے با وجود قید نہیں کاٹے گا۔کیو نکہ قید ایک شخص ہوتا ہے اور اذیت میں پورا خاندان۔تحریر : ممتاز احمد بھٹی