بھارت : ( جیو ڈیسک) بھارت کی صدر پرتیبھا پاٹل کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے ساتھ ہی بجٹ کے اجلاس کا آغاز ہوگیا جس میں انہوں نے معاشی، سماجی اور سکیورٹی کے مسائل پر زور دیا۔ پرتیبھا پاٹل نے اپنے خطاب میں حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے اس کی کامیابیوں کو اجاگر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس معاشی ترقی کی رفتار سست رہی لیکن اس کی بنیادیں مضبوط ہیں اور جلد ہی وہ پھر اپنی رفتار پکڑ لے گی۔ سال دو ہزار دس اورگیارہ کے دوران ہماری معیشت تقریبا ساڑھے آٹھ فیصد کی رفتار سے بڑھی تھی لیکن اس برس یہ سات کے قریب ہی رہی۔ عالمی رجحانات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ترقی کی بہتر رفتار ہے۔ انہوں نے کہا ہماری حکومت پراعتماد ہے کہ بہت ہی جلد اقتصادی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا اور معاشی ترقی کی رفتار آٹھ یا نو فیصد تک پہنچے گی۔
صدر پرتیبھا پاٹل نے اپنے خطاب میں زرعی پیداوار، سائنس و ٹیکنالوجی، بیرونی سرمایہ کاری اور دفاعی امور جیسے بہت سے سیاسی اور سماجی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کے اقدامات کو سرہا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے تینوں شعبوں کی تجدید کاری کی تمام کوششیں شد و مد سے جاری ہیں تاکہ بری فوج، بحریہ اور فضائیہ سکیورٹی کے تمام طرح کے مسائل سے نمٹنے کے قابل ہو سکیں۔
انہوں نے کہا توجہ اس بات پر دی جارہی ہے کہ ملک میں تیار ہونے والے دفاعی ساز و سامان پر انحصار بڑھے اور ہتھیاروں کے بنانے اور ان کے آپریشن میں ہم خود کفیل ہوں۔ ہمارا ہدف یہ ہے کہ آنے والے وقت میں ہماری فوج تکنیکی اعتبار سے دنیا میں سب سے بہتر ہو۔ اگنی چہارم اور خود ساختہ ہلکے جہاز تیجسو کا فوج میں شامل ہونا اس سمت میں ایک بڑی کامیابی ہے۔
بیرونی ممالک کے ساتھ رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر پاٹل نے کہا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشتگرد گروہوں اور ان کے نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے۔ اس سمت میں اب تک کی گئی پیش رفت سے ہم مطمئن ہیں۔خطاب کے دوران جب انہوں نے مسلمانوں کو ریزریویشن دینے جیسے متنازع امور کا ذکر کیا تو اپوزیشن کے ارکان نے نعرہ بازی کی اور شور مچایا۔
بھارت کا بجٹ روائتی طور پر فروری کے اواخر میں پیش کیا جاتا ہے لیکن پانچ ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات کے پیش نظر اسے مخر کردیا گیا تھا ۔ حالیہ انتخابات میں حکمراں جماعت کانگریس کو کافی نقصان ہوا ہے اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کی اتحادی جماعتیں بھی اس سے خوش نہیں ہیں اس لیے حکومت اس وقت سخت دباؤ میں ہے۔ اجلاس سے قبل وزیراعظم منوہن سنگھ سے جب نامہ نگاروں نے یہ پوچھا کیا کہ وہ اس دباؤ سے کیسے نمٹیں گے تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ارکان کی اتنی مناسب تعداد ہے جس سے مسائل سے نمٹا جا سکے۔
میرے خیال میں دبا پارلیمانی زندگی کا حصہ ہے۔ ہم پارلیمان کے فلور پر تمام طرح کے مسائل پر بحث کے لیے تیار ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جس تعداد کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہمارے پاس ہے۔ اس موقع پر منموہن سنگھ نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ بجٹ اجلاس کو مثر بنانے کے لیے ہنگامہ برپا کرنے کے بجائے تعاؤن کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تاکہ ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے اس پر بات ہوسکے۔ ریلوے کا بجٹ چودہ مارچ کو پیش کیا جائیگا جبکہ ملک کا بجٹ سولہ تاریخ کو وزیر حزانہ پرنب مکھرجی پیش کریں گے۔
اس اجلاس میں حکومت بجٹ کے ساتھ ساتھ بعض ایسے متنازع بل بھی متعارف کروانا چاہتی ہے جس کی مخالفت اپوزیشن کے ساتھ ساتھ کانگریس کی بعض اتحادی جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ کانگریس پارٹی کو حالیہ اسمبلی کے انتخابات میں ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اس لیے وہ پہلے سے زیادہ کمزور ہے اور اپوزیشن کئی معاملات میں اسے گھیرنے کی کوشش کریگی۔