امن ،دوستی ،محبت اور بھائی چارے کا راگ الاپنے والا بھارت حقیت میں جنگ ،نفرت ، بدامنی، لڑائی جھگڑے اور فساد چاہتا ہے پوری دنیا میں بھار ت وہ واحد ملک ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق کو سب سے زیادہ پامال کیا جاتاہے۔ بھارت کی ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میںہندو مذہب کے بعد سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے لیکن اس کے باوجود بھارت میں آج بھی مسلمانوں کے ساتھ غیر امتیازی سلوک کیا جا تا ہے جان بوجھ کر مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کے لیئے کبھی بابری مسجد گر ادی جاتی ہے تو کبھی بدنام زمانہ گُستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خبیث رُشدی کو بھارت آنے کی دعوت دی جاتی ہے اور ہر سال بھارت میں ہندو مذہب کا ایک فیسٹیول ، ہندو سماج اُتسوا ، کے نام سے منعقد ہوتاہے جس میں ہندوں کے بڑے بڑے لیڈرز دل کھول کر مسلمانوں کے خلاف باتیں کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیںاُتسوا کے منعقد کرنے کا مقصد صر ف اور صر ف مذہب اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔
بائیس جنوری 2012ء کو بھارت کے شہر مینگلور سے تقریباً 45 کلومیڑدور ایک گائوں اپنینگڈی میں ہندو سماج اُتسوا میں ہندو مذہب کے رہنما آر۔ایس۔ایس کلڈکا پربھاکر کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کے دوران علاقے کے حالات کشیدہ ہوگئے کیونکہ ہندو سماج اُتسوا کے پروگرام کے کے لیئے لائوڈ سپیکرز کو صر ف جلسہ گاہ تک محدود نہیں رکھا گیا تھابلکہ لائوڈ سپیکرز پورے گائوں کے مختلف حصوں میں نصب کئے گئے تھے یہ ہندئوں کی سازش تھی کہ علاقے میں موجود مسلمان جو یقینا ہندو سماج اُتسوا میں شرکت نہیں کریںگئے لیکن کسی نہ طرح وہ اپنی بیہودہ تقریر یں مسلمانوں تک پہچانا چاہتے تھے۔بھارت میںرہنے والے مسلمان یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندو سماج اُتسوا میں ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف ہی بھاشن دیا جاتاہے اس لیئے مسلما نو ںنے اپنینگنڈی کی انتظامیہ کو ساری صوتحال سے پہلے ہی سے آگاہ کیا تھا لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود بھی انتظامیہ نے ہندئوں کو پورے گائوں میں سپیکرلگانے کی اجازت دے دی اس سے واضہح ہوتا ہے کہ انتہا پسند ہندئوں کے آگئے بھارت انتظامیہ بے بس نظر آتی ہے۔
کلڈکا پربھاکر نے اپنی اشتعال انگنیرتقریر کے دوران اسلامی شریعت اور اسلامی قوانین کا خوب مذاق اُڑیا اور ہندو نوجوانوں کو اس بات پر زور دیا کہ اگر کسی مسلمان لڑکے کو کسی ہندو لڑکی کے ساتھ بات چیت کرتے دیکھو تو اُس مسلمان لڑکے کو فوراً گولی مار دو اُسے زندہ مت چھوڑواور نہ ہی اُسے قانون کے حوالے کرو کیونکہ پولیس والے چند پیسوں کے عوض ان کو چھوڑ دیتے ہیں تما م نوجوان مسلمان دہشت گر د ہیں اور دہشت گردوں سے پیار کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ کلڈکا پربھاکر نے مسلمانوں کی جہادی تنطیموں پر بھی الزام لگا یا کہ مسلمانوں کی ایک جہادی تنظیم کا نام ہے (love jihad)پیار کا جہاد اور اس تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان لڑکے ہندو مذہب کی لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر انہیں اپنے مذہب میں تبدیل کر لیتے ہیںاورجو مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اُ ن لڑکوں کو مسلم جہادی تنظیموںکی طرف سے خوب انعام و کرام سے نوازا جا تاہے اگر کوئی ہندو کشمیر ی لڑکی کو مسلمان کرتاہے تو اُسے 9لاکھ روپے دئیے جاتے ہیں اگر پنجابی ہوتو 7لاکھ روپے اور دیگر کے 5 لاکھ روپے دئیے جاتے ہیں۔جب شر پسند پربھاکر کی تقریر اپنینگڈی کے مسلمان نوجوانوں کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے وہاں پر موجود پولیس والوں سے مطالبہ کیا کہ وہ پربھاکر کی تقریر کا نوٹس لیں اور گائوں میں جلسہ گاہ سے ہٹ کر رکھے گئے لائوڈ سپیکر ز کو بند کروایا جائے لیکن جلسہ گاہ میں موجو د پولیس انتظامیہ تماشائی بنی کھڑی رہی اور تقریر کو جاری رہنے دیا۔مسلمانو سے نفرت کرنے میں بال ٹھاکرے سے بھی دو قدم آگئے کلڈکا پربھاکر کی گائوں میں نفرت اور فساد پھیلانے والی تقریر نے جلسہ گاہ میں موجو ہندو نوجوانوں کو جذباتی کردیااور جس کے نتیجے میں جلسہ ختم ہونے کے فور اً بعد ہی ہندو نوجونوں نے علاقے میں انتشار پھیلانے کے لیئے مسلمانوں کے گھرئوں اور مساجد پر پتھرائو شروع کردیاجواب میں مسلمان بھی گھروں سے نکل آئے ایک دوسرے کے دستِ و گریباں ہوئے کئی لوگ ذخمی ہو گئے تب پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دی اور دونوں طرف کے لوگوں کو حراست میں لے لیا۔یہ واقع بھارت میں لاقانونیت، ہندوں کی انتہا پسندی اور دوسر ے مذا ہب کے تحفظ نہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہندو سماج اُتسوا کے نام پر اکثر پروگراموں میںمسلمانوں کے خلاف اشتعال اننگیز بیان بازی کرنا اور ماحول کوخراب کرنا عام بات ہوکر رہ گئی ہے ہر بار ہندو سماج اُتسوا کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے بھارتی انتظامیہ کو آگاہ کیا جاتا ہے لیکن افسوس انتظامیہ کی طرف سے ہمیشہ مایوسی ہی ہو ئی ہے ۔بھار ت میں ہندو مسلم لڑائی میں پہل ہمیشہ بھارت کی طرف سے ہی ہوئی ہے لیکن قصور وار دونوں کو برابر کا سمجھا جاتاہے بھارتی مسلمانوں کو اس بات کا بھی رنج ہے کہ فسادات کے دوران دونوں طرف کے لوگوں کو گرفتار کیا جاتاہے لیکن پھر تھوڑے ہی عرصے بعد حکومت ہند ئوں پر عائد مقدمات واپس لے لیتی ہے جبکہ مسلمانوں کو کئی کئی سالوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں ۔بھارت میں مقیم مسلمانوں نے اپنینگنڈی کے واقع کی پر زور مذمت کرتے ہوئے بھار ت کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہندو سماج اُتسواء کے پروگراموں پر پابند ی عائد کر ے اور بھار ت میں ہندوں کی بڑھتی ہوئی ہندو گردی کو ختم کیا جائے