بھارت میں جمعرات کو سرکاری وکیل کی طرف سے سپریم کورٹ میں اس بیان کے بعد ہنگامہ مچ گیا کہ ہم جنس پرستی غیر اخلاقی فعل ہے اور یہ عمل غیر فطری ہے اور اس سے ایچ آئی وی کے جراثیم پھیلتے ہیں۔ حکومت اس سے پہلے یہ واضح عندیہ دے چکی تھی کہ وہ دِلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم جنس پرستی قانون کی نظر میں کوئی جرم نہیں ہے۔
سرکاری وکیل کے عدالت میں بیان کی خبر کے کچھ ہی دیر بعد وزارت داخلہ نے ایک بیان جاری کیا کہ ہم جنس پرستی کے سوال پر حکومت کا کوئی نیا موقف نہیں ہے اور ٹی وی چینلوں پر اس سلسلے میں جو خبر چل رہی ہے وہ درست نہیں ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس کے وکیل نے جو بیان دیا وہ حکومت کا موقف نہیں ہے۔ لیکن وزارت نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ غلط فہمی کیسے ہوئی؟ بتایا جاتا ہے کہ سرکار کے وکیل نے غلطی سے عدالت میں ایک پرانا حلف نامہ پڑھ دیا تھا جو دو ہزار نو میں دِلی ہائی کورٹ میں داخل کیا گیا تھا۔ سرکاری وکیل ایڈشنل سالیسٹر جنرل پی پی ملہوترا نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو بدل دیا جائے کیونکہ ہم جنس پرستی بھارتی سماجی اقدار کے خلاف ہے اور بھارتی معاشرہ دوسرے معاشروں سے مختلف ہے لہذا بیرونی ممالک کی روایات کی یہاں نقل نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارتی معاشرے کے زیادہ تر حلقے ہم جنس پرستی کے خلاف ہیں اور اس عمل کو جرم کے زمرے میں رکھنے کے لیے یہ وجہ کافی ہے۔
ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو ہندو، مسلم اور عیسائی مذہبی تنظیموں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت کا ایک دو رکنی بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ دو ہزار نو میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا گیا تھا جس نے فیصلہ کیا تھا کہ اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیاجائے گا اور اگر کوئی فریق عدالت سے رجوع کرے گا تو سرکاری وکیل اس معاملے کے مختلف پہلوں کاجائزہ لینے اور قانونی سوالات پر فیصلہ کرنے میں عدالت کی مدد کرسکتے ہیں۔ وزارت کا دعوی ہے کہ اس نے سرکاری وکیل کو اس فیصلے سے مطلع کردیا تھا اور اس کے علاوہ اس نے ہم جنس پرستی کے سوال پر کوئی موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ ابھی ایڈشنل سالیسٹر جرنل نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ جب حکومت سے انہیں کوئی تازہ احکامات نہیں ملے تھے تو انہوں نے ایک پرانے حلف نامے کی بنیاد پر عدالت میں کھڑے ہوکر اتنے دیر بحث کیسے کی۔