تحریر: محمداعظم عظیم اعظم آج یقینایہ بات نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی خوش آئند ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیوڈ ائیلاگ شروع کرنے کا عندیہ دے دیا گیاہے جس کا اعلان گزشتہ دِنوں اسلام آباد میں منعقدہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کے لئے آئیں بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے مشیرخارجہ سرتاج عزیز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کیا بھارت کی جانب سے ایک ایسے موقعے پر کہ جب بھارت کی طرف سے ورکنگ باو ¿نڈری پر بلااشتعال گولہ باری کے واقعات سمیت بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی حوالوں سے حالات کشیدہ ہوتے جارہے تھے
یوں دونوں ممالک کے درمیان جاری مذاکراتی عمل رک گیاتھا اَب ایسا لگتا ہے کہ جیسے سشماسوراج جی کے کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیوڈائیلاگ شروع کرنے کی بات کے بعد واقعی برف پگھلنے لگی ہے اَب دیکھنا تو یہ ہے کہ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج جی کے بھارت جاکربھی اپنے کہے ہوئے پر قائم رہتی ہیں یا اپنے وزیراعظم نریندرمودی جی کی صورت دیکھتے ہی اپنی زبان سے سلپ ہوجاتی ہیں اور پھر مودی کی زبان اپنے منہ میں ٹھونس کر اُنہی کی زبان بولنا شروع کردیتی ہیں اور اپنے ہی کہے ہوئے سے مکرجاتی …؟؟بہر حال جیسا بھی ہوگا وہ سب کچھ جنوبی ایشیا ءوالوں کے سامنے تو آہی جائے گا مگر دنیا بھی یہ دیکھ لے گی کہ بھارتی اپنے کہے ہوئے سے خود کیسے پھرتے ہیں اور یہ بھی دنیا کو لگ پتا جائے گا کہ بھارتی بے اعتبار اور بے کار سے لوگ ہیں۔
بہر کیف ..!! ایک ایسے میں وقت میں کہ جب بھارت کی جانب سے پاکستانی سرحدوں پر گولہ باری کا بلااشتعال جاری سلسلے سے مذاکراتی عمل رک گیاتھا اِس مذاکراتی عمل کی شروعات کی نوید خود بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج جی کی جانب سے اِس اعلان کیا جانا کہ اَب ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیو ڈائیلاگ کا سلسلہ جلد شروع کیا جائے‘ ‘انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزاہے جس سے یقینی طور پر دونوں ممالک کے باہمی تنازعات کی گتھی سُلجھانے میں کافی مدد حاصل ہوسکے گی اور پاک بھارت تعلقات میں بھی خاصی بہتری کے اِمکانات روشن ہوںگے ۔
Sushma Swaraj
ِاِس سے انکار نہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کی پھر سے بحالی سے متعلق بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کی طرف سے کیا جانے والا یہ اعلان اَب یقینا خطے میںقائم امن اور دونوں ممالک کی خودمختاری کے لئے ایک میجر بریک تھرو ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان عرصہ دار سے چلی آنے والی بہت سی ایسی ناراضگی اور غصے کا بھی خاتمہ ہوسکے گا جو محض افواہوں اور منفی پروپیگنڈوں کی وجہ سے غلط فہمیوں کی بنیادوں پیداہوگئیں تھیںاُنہوں نے کہاکہ ” خطے اورپاکستان اور بھارت کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے اور دونوں ممالک کی عوام کی ترقی وخوشحالی کے لئے بہت ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات جلد شروع کئے جائیں اور اَب بھارت اور پاکستان کے درمیان کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیوڈائیلاگ ہونے چاہئیں“۔
جبکہ اِس سے اگلے روز اسلام آباد پہنچنے پر بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جس طرح کہا تھاکہ ” پاک بھارت تعلقات اور رشتے مزید اچھے اور مضبوط کرنے کے لئے آئی ہوں اورمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے اِس لئے میں شرکت کے لئے آئی ہوں اور میری خواہش ہے کہ جب پاکستانی حکام سے ملاقاتیں ہوں توہم دونوں ممالک کے باہمی رشتے سُدھارنے اور آگے بڑھانے کے بارے میں باتیں کریں
جس طرح بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے پاکستان آمد پر اپنے جذبات اور خیالات کا اِظہار کیا ہے آج اگر واقعی یہ بھارت جانے کے بعد بھی اِس پر قائم رہیں اور اپنے اِن نیک جذبات اور خیالات کو اپنے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور دیگر شخصیات کو بھی بتادیں تو کوئی ہرج نہیں کہ خطے میں پاک بھارت تعلقات کے بہتر ہوتے ہی بہت سی ایسی مثبت اور تعمیری تبدیلیاں آئیں گیں جو پاک بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی کئی حوالوں بالخصوص امن عامہ اور معاشی اور اقتصادی لحاظ سے ایسے انقلاب کی کرن ثابت ہوں گیں جن پر گامزن ہر کر پاک بھارت اور خطے کے پڑوسی ممالک ترقی و خوشحالی کی راہیں ہموار کرسکیں گیں۔
LOC
اگرچہ آج یہ نکتہ پاکستان اور بھارت کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اور بھارت نے نئے سرے سے جامع مذاکرات کی دوبارہ بحالی پر اتفاق کرلیا ہے ایسا محسو س ہورہاہے کہ جیسے اَب دونوں ممالک کواچھی طرح یہ اندازہ ہوگیاہے کہ ہم خطے میں جنگ وجدل کا ماحول پیدا کرکے اپنی اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لئے جنگی جنون میں مبتلاہیں اور اَب تک اِس فعلِ شنیع میں مبتلا رہ کر ہم سوائے اپنے وسائل اور طاقت کے ضائع اور دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے کے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے ہیں جبکہ خطے میں دائمی امن اور اقتصادی ڈھانچے کو استحکام بخش بنانے اور دنوں ممالک کے عوام کے درمیان محبتوں اور جذبہ خیر سگالی کو پروان چڑھانے اور LOC اورورکنگ باو ¿نڈری کے اِدھر اُدھرکے امن پسند عوام کو قریب لانے کے لئے صرف مذاکرات ہی وہ راستہ ہیں جسے جاری رکھ کر بھارت اور پاکستان اپنی اپنی بقاءو سا لمیت اور خودمختاری پر قائم رہ سکتے ہیں ۔
آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے دوممالک بالخصوص بھارت اور پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات اور زمینی حائق یہ تقاضاضرور کررہے ہیں کہ یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیںہے، بلکہ دونوں ممالک کے حکمران الوقت سے خطے کے تیزی سے بدلتے حالات اور واقعات چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ آج ہم اپنی تمام اندررونی اور بیرونی ذاتی و فروعی سیاسی و سماجی چپقلش اور کدورتوں کا حل افہام و تفہیم اور کامیاب مذاکرات سے ہی خود نکالیں تو ہم آنے والے وقتوں میں نہ صرف اپنے اندرونی اوربیرونی بلکہ خطے کوبہت سے ایسے خطرناک ترین چیلنجز سے بھی ضرور بچا سکتے ہیں جوموجودہ حالات میں ہماری ضد و ہٹ دھرمی اور کمبختی کی وجہ سے نازل ہونے والے ہیں۔
جبکہ آج اگر بھارت اپنے کہے پر قائم رہتاہے اور اِس پر پوری طرح سے عمل بھی کرتاہے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ جامع مذاکرات کے شروع ہوتے ہی مسئلہ کشمیر وسیاچن اور کارگل جیسے دیگر ایسے مسائل جن کا جامع حل دونوں ممالک کے لئے کسی بھی صورت جنگ سے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے پر جنگ سے سبقت حاصل نہیں کرسکتے ہیں سوائے باہمی اور جامع اور بامقصد مذاکرات ہی ایسے تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک سمیت خطے کے دیگر ممالک کے درمیان بھی باہمی روابط بڑھانے کے لئے اہم مواقعہ فراہم ہوں گے۔