امریکہ میں آئندہ ماہ صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ امریکہ میں کون سی پارٹی اقتدار میں آتی ہے اس کا اثر تمام ممالک کی طرح بھارت پر بھی پڑے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کے لیے کون بہتر صدر ہوگا، باراک اوباما یا مٹ رومنی؟
دسمبر انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش کے قیام کے لیے کوشش کے دوران جب جوہری توانائی سے چلنے والا جہاز یو ایس ایس انٹرپرائزز خلیج بنگال سے گزر رہا تھا تو دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے لیے غصہ اور عدم اعتمادی کا جزبہ کافی شدید تھا۔
لیکن سرد جنگ کے خاتمے اور بھارت میں اقتصادی لبرلائزیشن کے بعد دونوں ممالک کے رشتوں میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ اب امریکہ بھارت کا تجارتی، اقتصادی اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے سب بڑا پارٹنر ہے۔
فی الوقت امریکہ اور بھارت کی دوستی اتنی مضبوط ہے کہ چاہے وہ سمندری سکیورٹی کا مسئلہ ہو یا شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ چیلنجز کا، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔
اس وقت امریکہ میں تیس لاکھ بھارتی شہری رہتے ہیں۔ بھارتی نژاد امریکیوں کے بھارت کی مڈل کلاس کے ساتھ رشتے مزید بڑھ رہے ہیں اس لیے امریکی انتخابات میں بھارتی شہریوں کی دلچسپی گہری ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ میں امریکی صدارتی انتخاب کی خاص کوریج ہو رہی ہے۔ صدر باراک اوباما اور ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدر کے عہدے کے امیدورا مٹ رومنی کے درمیان انتخابات سے پہلے ہونے والی بحث بھارتی میڈیا میں دکھائی جا رہی ہے۔
بہت سے بھارتی ٹی وی چینل اپنے نمائندے امریکہ بھیج رہے ہیں تاکہ انتخابات کی کوریج براہ راست ہوسکے۔
پسماندہ طبقوں کی فلاح کی پالیسیوں اور عام زندگی کو بہتر بنانے کے اس کے عزم کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی بھارت میں کافی مقبول ہے۔
بھارت میں ڈیموکریٹک پارٹی کو ان دنوں میں حمایت حاصل تھی جب بھارت امریکہ کی اقتصادی امداد پر منحصر تھا۔ اب نہ تو بھارت امریکہ سے معاشی امداد مانگتا ہے اور نہ اسے وہ دی جاتی ہے۔ ایسے میں بھارت کے لوگ امریکی سرکار اور امریکی صدر کو اس نظریے سے دیکھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے رشتے پر وہ صدر کیا رائے رکھتا ہے۔
بل کلنٹن کی حکومت کو بھارت مخالف کے طور پر دیکھا گیا تھا کیونکہ وہ بھارت پر دبا بڑھانا چاہتے تھے اور بھارت کے جوہری پروگرام پر پابندی کے حمایتی تھے۔
یہ نظریہ اس وقت بدلا جب بھارت پر عائد پابندیاں ناکام رہیں اور سنہ 1998 میں بھارت کے جوہری تجربوں کے بعد بل کلنٹن نے بھارت کا کامیاب دورہ کیا۔
لیکن سابق صدر جارج بش نے بھارت اور امریکہ کے رشتوں کو نیا رخ دیا۔
سالانہ اسی ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ آمدنی والے بھارتی نژاد امریکی امریکہ میں رہنے والے سب سے امیر ایشیائی لوگ ہیں۔ بھارتی نژاد امریکی شہریوں کا سلیکون ویلی میں اہم کردار رہا ہے اور کارپوریٹ شعبے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
حالانکہ امریکہ میں رہنے والے بھارتی نژاد افراد کی پہلی نسل خود کو ڈیموکریٹک پارٹی کے قریب مانتی ہے۔ لیکن اب وہاں بھارتی نژاد سیاست دانوں کی سوچ میں رفتہ رفتہ تبدیلوں کے اشارے ملے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بھارت میں آوٹ سورس ہونے والی نوکریوں کے خلاف اوباما کے سخت بیانات ہیں۔
بھارت کے بڑے صنعت کار بھی یہی چاہتے ہیں کہ سرمایہ کاری کی پالیسیوں میں امریکہ کچھ لچک کا مظاہرہ کرے تاکہ سرمایہ کار امریکہ میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرسکیں۔
مٹ رومنی آزاد خیال سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں اس لیے ان کی اقتصادی پالیسی بھارت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ ویسے یہ بھی مانا جاتا ہے کہ امریکہ کی دونوں اہم پارٹیاں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی میں اس بات کے لیے اتفاق رائے ہے کہ بھارت کے ساتھ بہتر رشتوں کو آگے لے جانا ہے۔